تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ وطن عزیز کے مختلف اضلاع میں انسداد پولیو مہم شروع ہو چکی ہے اور انسداد پولیو مہم کو کامیاب بنانے کیلئے والدین کو انسداد پولیو کے قطرے بچوں کوپلانے کیلئے دفعہ144سمیت مختلف قوانین کو نافذ کیا گیا ہے بلکہ کئی خاندانوں پولیو کے قطرے بچوں کوپلانے سے انکار پر مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ انسداد پولیو مہم کو کامیاب بنانے کیلئے عوامی آگاہی کیلئے کروڑوں روپے اخبارات ،ٹی وی چینل پر اشتہارات دئیے جاتے ہیں تاکہ انسداد پولیو کیا جاسکے ،پاکستان کو پولیوفری ملک بنایا جاسکے۔ لیکن اسلام آباد انسداد پولیو مہم کے دوران آنے والے واقعہ نے پاکستان بھر کے عوام کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے ”خبر ہے کہ ڈائریکٹر ایکسائز مریم ممتاز کے شوہر نے بچی کو قطرے پلانے سے انکار کیا تاہم اس کے باوجود بچی کو قطرے پلائے گئے، خاتون آفیسر مریم نے پہلے اے سی سٹی علی اصغر کو فون پر کھری کھری سنائیں کہ میں نے بچی کو قطرے پلا دئیے تھے تو پھر تمہاری جرات کیسے ہوئی میری بچی کو پولیو کے قطرے پلائو فون پر صلواتیں سنانے کے بعد مریم ممتاز نے چیف کمشنر کو بھی شکایت کردی۔چیف کمشنر اسلام آباد ذوالفقار حیدر نے معاملے کو سمجھنے کے بجائے آؤ دیکھا نا تاؤ اے سی سٹی علی اصغر سے ایک گھنٹے میں جواب طلب کرلیا جس پر اے سی سٹی علی اصغر نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ وہ غلطی نہ ہونے کے باوجود خاتون آفیسر سے معافی مانگنے کو تیار ہیں صحیح کام کرنے کے باوجود معافی مانگنے پر بھی علی اصغر کی جان نا بخشی گئی اور چیف کمشنر نے ان کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کردیں”اس واقعہ ہرپاکستانی شہر ی کو کئی خدشات پیداکردیئے ہیں۔
ہر سرکاری ،غیرسرکاری محفلوں یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان کے کروڑوں بچوں پولیو قطرے پلائے جارہے ہیں پربچی کو پولیو قطرے پلا نے پر ڈائریکٹر ایکسائز مریم ممتاز کی شکایت پر چیف کمشنر نے کیوںفوری طور پر اے سی سٹی علی اصغر کو عہدے سے فارغ کیا۔ کہی کمیشن مافیا کے ذریعے قوم کے ساتھ فراڈتونہیں ہوا،وغیرہ ،وغیرہ۔ماہرین کہناہے کہ اس واقعہ نے ثابت کردیا کہ ہر میڈیسن کا تجربہ پاکستانی بچوں پر کیا جاتاہے ۔یوں لگتاہے کہ ڈائریکٹر ایکسائز مریم ممتازکے شوہرکو پولیو قطرے معلومات تھی ،معاملے کو ختم کرنے کیلئے چیف کمشنر نے کیوںفوری طور پر اے سی سٹی علی اصغر کو عہدے سے فارغ کردیا۔حکومت پاکستان پر یہ سوالیہ نشان ہے ؟کیوں اس وقت پاکستان5سوکے قریب مختلف قسم میڈیسن تیارکرنے میں مصروف ہیں۔ اکثریت جعلی ادویات بنانے کا الزام ہے۔
ماہر ین صحت کاکہنا ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پولیو وائرس سے متاثر ہونے والے زیادہ تر لوگوں میں عام طور پر یہ علامات نظر آئیں گی۔”گلے کی سوزش،بخار،تھکاوٹ،قے یا متلی،سردرد،پیٹ میں درد”وغیرہ شامل ہیں۔یہ علامات عام طور پر 2 سے 5 دن کے بعد اپنے طور پر دور ہو جاتی ہیں۔ پولیو وائرس انفیکشن کے ساتھ لوگوں کے ایک چھوٹے تناسب کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر اثر انداز ہوتا ہے جس سے دوسرے وائرس زیادہ سنگین علامات کے ساتھ نظر آتا ہے۔
1 ۔ خاموش پولیو (Silent polio) : یہ بچوں میں عام ہوتا ہے اور جن خاندانوں میں یہ مرض پہلے سے موجود ہو اسے خاموش پولیو کہا جاتا ہے ۔ یہ بچے کی غذائی نالی میں موجود ہوتا ہے لیکن اس کے نظام ہاضمہ پر حملہ نہیں کرتا اور علامات ظاہر نہیں کرتا۔ 2 ۔ ابورٹوو پولیو (Abortive polio) : اس قسم میں وائرس کا حملہ شدید ہوتا ہے لیکن نظامِ عصاب کے علاوہ دیگر جسمانی نقائص پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ قسم اکثریت میں پائی جاتی ہے اور 5 سال کی عمر کے بچوں سے لے کر 50 سال کے بوڑھے لوگوں میں بھی موجود ہے ۔ اس قسم میں خواتین زیادہ مبتلا ہوسکتی ہیں۔
3 ۔ نون پرالیٹک پولیو (NonـParalytic polio) : اس میں عصابی کمزوری بڑھ جاتی ہے ۔ لیکن اس کے باجود نظام اعصاب کو مستقل نقصان نہیں ہوتا صرف سوزش ہوتی ہے جو بعد میں ٹھیک ہوجاتی ہے ۔ 4 ۔ پرالیٹک پولیو (Paralyticl polio) : اس قسم میں عصابی نظام پر شدید حملہ ہوتا ہے اور نظامِ عصاب مکمل کر پر کام کرنا بند کردیتے ہیں۔
5 ۔ بلبو اسپائنل پولیو (Bulbo spinal polio) : اس قسم کے وائرس متاثرہ شخص کو مفلوج بنا سکتے ہیں۔ اس میں نظام تنفس کے ازلات مفلوج ہوجاتے ہیں۔ لہذا مریض کا سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے اور سانس لینے کی سہولت ختم ہوجاتی ہے جس سے موت واقع ہوجاتی ہے ۔ پولیو کے علاج اس کی روک تھام کیلئے پولیو ویکسین پولیو وائرس سے لڑنے کے لئے بچوں کے جسم کی مدد کرتا ہے اور بچوں کی حفاظت کرتا ہے . ویکسین کے صرف چند قطرے خوراک کے ذریعے سے لینے سے تقریبا تمام بچوں (100 میں سے 99 بچے ) کو پولیو سے حفاظت یقینی ہوجاتی ہے۔
فعال پولیو وائرس ویکسین (IPV) اور زبانی پولیو وائرس ویکسین (وپیوی): پولیو کی روک تھام کر سکتے ہیں ویکسین کی دو قسمیں ہیں. صرف IPV 2000 کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں استعمال کیا گیا ہے ۔ ویکسین اب بھی دنیا کے زیادہ تر ممالک میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ صرف دس فی صد لوگ اس وائرس سے متاثر ہوتے ہیں جو قدرتی مدافعتی نظام کے باعث اس سے مامون ہو جاتے ہیں، صرف ایک فی صد مریضوں کے خون کے مدافعتی نظام سے بچ کر وائرس دماغ اور حرام مغز تک رسائی حاصل کر کے وہاں اعصاب کو متاثر کر دیتا ہے ، جس سے مریض کا نچلا دھڑ مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے ۔ پولیو نے نہ کبھی طاعون کی شکل اختیار کی، نہ کبھی وبائی انفلوئنزا کی طرح وبائی انداز میں پھیلا۔ 1900ء تک اس کیلئے کوئی ویکسین کامیاب نہیں ہوئی تھی، کیونکہ سائنس دانوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے پھیلنے کا سبب کوئی ایک وائرس نہیں، بلکہ متعدد وائرس ہیں۔ مسٹر جونا سالک نے 1947ء میں اس سلسلے میں تحقیقات کا آغاز کیا اور 1952ء میں ویکسین متعارف کروائی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ویکسین ایک بہت اچھا بزنس بن گئی۔
اس سلسلے میں ایک اور عجیب و غریب نظریہ یہ بھی ہے کہ 1900ء کے دور میں صحت و صفائی کے حالات بہت بہتر نہیں تھے ۔ بچوں کو گندگی سے اس بیماری کا وائرس متاثر کرتا تھا، جس سے اس میں قدرتی مدافعت پیدا ہو جاتی تھی اور کسی دواکی کوئی ضرورت نہیں پڑتی تھی، لیکن 1900ء کے بعد جب صحت و صفائی کی صورت حال بہتر ہوگئی تو قدرتی طور پر اس وائرس سے متاثر ہونے کے مواقع کم ہوگئے ، جس کے نتیجے میں مدافعت بھی کمزور پڑ گئی اور پولیو کے زیادہ کیس سامنے آنے لگے ، لیکن اب اس دور میں کچھ اور بھیانک انکشافات ہوئے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اب قدرتی طور پر پولیو سے متاثر ہونے کے کیسوں سے کہیں زیادہ پولیو ویکسین سے یہ مرض پھیل رہا ہے ، بلکہ اس سے کچھ دوسری پیچدگیاں بھی پیدا ہو رہی ہیں، جس سے نہ صرف پولیو، بلکہ تمام بیماریوں کی ویکسین مشکوک ہوگئی ہیں۔
2009 میں امریکی پبلک براڈ کاسٹنگ سروس نے امریکن ایکسپیریئنس،دی پولیو کروسیڈ کے نام سے ایک ڈاکومنٹری بنائی،12 اپریل 2010 کو سالک کی ویکسین کی 55ویں سالگرہ پر 66 منٹ کی ڈاکومنٹری”دی شاٹ فیلٹ راؤنڈ دی ورلڈ” نشر کی گئی۔اکتوبر 2014 کو رابرٹ ریڈ فورڈ نے سالک انسٹیٹیوٹ پر ایک فلم کی ہدایتکاری کے فرائض سرانجام دیئے جو بچپن میں پولیو سے کچھ متاثر ہوا تھا۔