پولش کیتھولک چرچ میں بچوں کے جنسی استحصال کی سینکڑوں نئی شکایات

Arrested

Arrested

وارسا (اصل میڈیا ڈیسک) پولینڈ میں کیتھولک چرچ نے کلیسائی اہلکاروں کے ہاتھوں کم سن بچوں کے جنسی استحصال کی سینکڑوں نئی شکایات کا انکشاف کیا ہے۔ پولش کیتھولک چرچ کو پہلے ہی مشکل حالات کا سامنا ہے۔ یہ شکایات 2018ء سے لے کر اب تک درج کرائی گئیں۔

پولینڈ کے دارالحکومت وارسا سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق کم عمر بچوں کے جنسی استحصال اور ان سے کی جانے والی جنسی زیادتیوں کی ان شکایات میں کیتھولک کلیسا سے وابستہ مختلف مذہبی شخصیات کے ان جرائم کا ذمے دار ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

پولینڈ مشرقی یورپ کا اکثریتی طور پر کیتھولک مسیحی آبادی والا ملک ہے اور وہاں کیتھولک چرچ بہت زیادہ سیاسی اثر و رسوخ کا حامل ہے۔ اس ملک میں کچھ عرصہ پہلے تک کلیسائی اداروں میں بچوں سے کی جانے والی جنسی زیادتیوں کے واقعات کے بارے میں کچھ بھی کہنا شجر ممنوعہ سمجا جاتا تھا۔

اب لیکن صورت حال کافی بدل چکی ہے اور اس ملک میں کلیسائے روم کو پہلے ہی ان الزامات کا سامنا ہے کہ وہاں کئی سرکردہ کلیسائی شخصیات کم سن بچوں کے جنسی استحصال کی مرتکب ہوئیں یا انہوں نے ایسے واقعات کی پردہ پوشی کی تھی۔

کیتھولک کلیسا کی طرف سے پولینڈ میں بچوں کے تحفظ کی کوششوں کے لیے نامزد کردہ رابطہ کار اور Jesuit پادری ایڈم ذاک نے اس بارے میں اپنی چھان بین کے نتائج پر مشتمل رپورٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ”حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ سروے کے بعد سے ہمیں ایسی شکایات اور انکشافات کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔ یقینی طور پر اب بھی ایسے کئی واقعات ہیں، جو تاحال پوشیدہ ہیں اور جو مستقبل میں رپورٹ کیے جاتے رہیں گے۔‘‘

ایڈم ذاک نے ایک آن لائن بریفنگ میں بتایا کہ جولائی 2018ء سے لے کر گزشتہ برس کے آخر تک پولینڈ میں کیتھولک چرچ کو کم عمر بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی 368 شکایات موصول ہوئیں۔ انہوں نے کہا، ”ان واقعات میں سے کچھ کا ارتکاب عشروں پہلے کیا گیا تھا لیکن متاثرین نے ان کی باقاعدہ شکایات اب کی ہیں۔ دیگر واقعات جنسی استحصال کے حالیہ واقعات ہیں۔‘‘

فادر ذاک نے بتایا کہ کلیسا کو ملنے والی جنسی استحصال کی ان 368 شکایات میں سے 39 فیصد واقعات کو شواہد کی بنا پر درست تسلیم کیا گیا، 51 فیصد شکایات کی چھان بین جاری ہے جبکہ 10 فیصد شکایات کو چھان بین کے بعد ان کے قابل اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا۔

کلیسائی اہلکاروں کی طرف سے جنسی استحصال کے ان واقعات میں نصف متاثرین کی عمریں 15 برس سے کم تھیں۔ ان میں سے تقریباﹰ نصف تعداد لڑکوں کی تھی جبکہ متاثرین کا دوسرا نصف حصہ لڑکیوں پر مشتمل تھا۔ ایڈم ذاک نے مزید بتایا کہ چند واقعات میں تو ایسے جرائم کے مرتکب چرچ اہلکار متاثرہ بچوں کا ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصے تک جنسی استحصال کرتے رہے۔