فروری کے پہلے ہفتے میں برطانیہ میں پاکستانی و کشمیری سیاسی جماعتوں کی آمد و رفت کا سلسلہ کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے حوالے سے شروع ہو چکا تھا، وزیر خارجہ محمود قریشی کی آمد کیوجہ سے سیاسی ماحول زیادہ گرم ہو گیا تھا۔ پھر پانچ فروری کو برطانیہ بھر سے پاکستانی و کشمیری کمیونٹی کے افراد بسوں اور نجی گاڑیوں پر لندن تشریف لائے۔خوبصورتی کا پہلو یہ ہے کی کشمیریوں سے اظہار یکجہتی میں سبھی جماعتوں کے ا فرد ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے تھے، لوگوں کی معقول تتعداد جو ہزاروں میں تھی،بین الاقوامی برادری کو پیغام پہنچانے میں کامیاب رہی۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران کے اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر یوں کے حق خود ارادیت کے حصول کی کامیاب نمائندگی کی۔سلطان محمود چودھری نے انگریزی میں بڑا موثر خطاب کیا ،جس پر تالیاں بھی بجائی گئیں۔
نون لیگ کے سنیٹر سید مشاہد حسین نے بھی کشمیر کاز پر موثر خطاب کیا۔آزاد کشمیر کے موجودہ صدر سردار مسعود خالد نے بھی مسئلہ کشمیر پر مختصر جامع خطاب کیا،برطانیہ میں پہلی بار ساری سیاسی جماعتوں نے اکھٹے ہو کر قومی اور علاقائی مسائل پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے احتجاج کیا،مگر برطانیہ میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی سر گرمیاں دوسری جماعتوں کی بہ نسبت زیادہ تھیں۔برطانیہ بھر سے تشریف لانے والوں کی اکثریت کا تعلق تحریک انصاف سے تھا۔اس احتجاج کو کامیاب کرنے میں پاکستان تحریک انصاف پیش پیش تھی،جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے افراد کی شرکت واجبی تھی۔
پانچ فروری کو آزاد کشمیر نون لیگ کے صدر مسعود خالد غائب ہو چکے تھے۔پیپلز پارٹی کی طرف سے چودھری یسین اور مسلم کانفرنس کے قائد سردار عتیق بہ نفس نفیس موجود تھے، مگر ان کے کارکنوں کی تعداد بہت کم تھی۔اس کے بعدوزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تارکین وطن سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے تین مزید سیاسی بیٹھکیں لندن،برمنگھم،اور مانچسٹر میں کیں،بیرسٹر سلطان محمود کی موجودگی اور کاوشوں سے ان اجلاسوں کو مزید جلا بخشی گئی۔پیپلز پارٹی اپنی بقا کی بر طانیہ میں سر توڑ کو شش کر رہی ہے۔آزاد کشمیر کے صدر چودھری لطیف اکبر آجکل بر طانیہ کے دورے پر ہیں،نائب صدر مطلوب انقلابی اور چودھری یسین بھی اپنی سیاسی بیل کو منڈھے چڑھانے میں سرگرداں ہیں،مگر برطانیہ ان تین سیاسی جماعتوں ،نون لیگ،پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے ۔ جو چند ان جماعتوں کے بچے کھچے کارکن رہ گئے ہیں ان کی زہنی کیفیت ایک خلع یافتہ عورت کی سی ہے۔ لوگوں کی اکثریت تحریک انصاف کے بیانیے پر ایمان لا چکی ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پاکستانی و کشمیریوں کا سیاسی قبلہ بن چکا ہے۔قانون کی حکمرانی اور سوشل ڈیمو کریسی کے جو مظاہر وہ یہاں دیکھتے ہیں ویسا ہی سیاسی ماحول یہ اپنے ملک میں بھی دیکھنا چاہتے ہیںْتارکین وطن تحریک انصاف کی لبرل ڈیمو کریسی اور قانون کی حکمرانی کو عملی شکل میں دیکھنے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔اس بنا پر مغربی ممالک میں آباد پاکستانیوں کی کثیر تعداد روائیتی سیاست سے متنفر ہو چکی ہے۔
بیرسٹر سلطان محمود لبرل اور سوشل ڈیمو کریسی کی نمائندگی کر رہے ہیں،تحریک انصاف کے بیانیے کو کشمیر میں بھی متعارف کرا رہے ہیں ،ان پر مسئلہ کشمیر کی زمہ داریاں بھی ہیں ،اس سلسلے میں پانچ فروری کے بعد بھی ان کا سفر جاری وساری رہا،انہوں نے امریکہ میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ ناشتہ میں کشمیر کے مسئلہ کو اجاگر کیا،وہاں بھی حق خود ارادیت کے لئے احتجاج کئے۔پھر واپسی لندن میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔اس سلسلے میں ان کو کافی پزیرائی بھی حاصل ہوئی،برطانیہ میں تنطیم سازی کی زمہ داریاں بھی نبھائیں،آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی تنظیم سازی سے لے کر اس کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا اتنے مخٹصر عرصہ میں کریڈت انہی کو جاتا ہے بلکہ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی ایک مضبوط سیاسی جماعت بن چکی ہے،نئی نسل تحریک انصاف کے بیانیے کو قبول کر رہی ہیں،جہاں برادریوں اور کھڑپینچوں کی سیاست کی جاتی تھی نئی نسل اس سے نجات حاصل کر رہی ہے۔
بیرسٹر صاحب کے لئے ایک مسئلہ ہو گا کہ برادریوں کے چنگل سے آزاد ہو کر پارٹی کو عوام تک کیسے متعارف و مقبول کیا جائے،نوجوان نسل میں ٹیلنٹ ہے ،جب تک مختلف قبائل سے ٹیلینٹ مستعار نہیں لی جاتی تحریک انصاف تو کیا کوئی بھی سیاسی جماعت کشمیر میں جڑپکڑ نہیں سکتی،کیونکہ آزاد کشمیر کی سیاسی و سماجی ساخت برادری و قبائلی نظام پر قائم ہے،مگر تحریک انصاف اس نظریہ پر قائم نہیں۔بیرسٹر صاحب اکیلے نہیں بلکہ ان کے پرانے ساتھیوںپر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کشمیر میں تمام قبائل کو ساتھ لے کر چلیں اور باہمی احترام و عزت سے تحریک انصاف کے بیانیہ کو سیاسی طاقت سے ہمکنار کریں،کیونکہ صاحب صلاحیت کارکن کسی جماعت ومعاشرے کا بہترین اثاثہ ہوتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی ترقی میں صرف لیڈر کا کردار اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا اس کے پکے کارکنوں کا ہوتا ہے۔آزاد کشمیر کی سیاست میں بڑے قبائل کبھی بھی اکیلے کامیابی حاصل نہیں کر سکتے جب تک وہ دوسرے قبائل کو نمائندگی نہیں دیتے۔تحریک انصاف متوسط اور زیریں متوسط طبقے کی نمائندہ جماعت ہے اس کو جدید علمی و سیاسی فکر سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے، جو اصلاحات اور سیاسی وسماجی ہیت میں رد تشکیل کرنا چاہتی ہے۔معاشرہ ارتقاکا سفر تیزی سے طے کر رہا ہے اس بنا پر مختلف قبائل اور طبقات کو تحریک انصاف کے قومی دھارے میں لانا ضروری ہو گیا ہے۔بیرسٹر صاحب نے مختصر عرصہ میں اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے ،مگر اتنا کافی نہیں اس کے لئے روائتی سیاسی کارکنوں کو بھی خندہ پیشانی اور وسیع القلبی سے دوسروں سے تعلق قائم کرنا ہو گا ،کیونکہ آزاد کشمیر میں ہر طبقے وبرادری کا فرد تبدیلی کا خواہاں ہے اس کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ادھر برطانیہ میں بھی چودھری حکمداد،چودھری فاروق۔چودھری دلپذیر جیسے سیاسی نو رتن انکے پاس موجود ہیں،جن کی کاوشوں سے جماعت میں جان پیدا ہو گئی ہے،کیونکہ آزاد کشمیر کی سیاست کو بلواسطہ آکسیجن برطانوی کشمیری ہی فراہم کرتے ہیں،حالیہ تحریک انصاف برطانیہ نے تحریک انصاف کشمیر کیساتھ مل کر احتجاجی جلسوں کو طاقت بخشی۔لندن میں اس سلسلے میں رومی ملک کا کردار مثالی رہا۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ آزاد کشمیر اور بیرونی ممالک میں تحریک انصاف کو جدید لبرل قدروں سے کیسے ہم آہنگ کیا جائے اور روائتی سیاسی اثرات سے جماعت کو کیسے محفوظ کیا جائے۔