سیاسی دنگل۔ گھنا خاردار جنگل

Quetta Incident

Quetta Incident

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
اسلام آباد کو بند کرنے والے اپنی ڈگر پر رواں دواں ہیں اور ہر صورت پانامہ لیکس کی بنیاد پر وزیر اعظم کو ہٹانا چاہتے ہیں۔خواہ اس معرکہ میں کتنی ہی تکالیف برداشت کرنا پڑیں اپنی یا معصوم ورکروں کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ دوسری طرف حکمرانوں نے اسے غیر آئینی غیر قانونی سمجھ کر اس کو ہر صورت روکنے کی پلاننگ مکمل کرلی ہے ہزاروں کنٹینر وہاں پہنچائے جا رہے ہیں۔

اگر عمران پرو گرام ملتوی کردیں اور سپریم کورٹ میں جنگ جیتنے کی تیاریوں میں مصروف ہو جائیں تو اس محاذ پر حکمرانوں کا 45کروڑ کا طے شد خرچہ بھی الم غلم ہو کر سارا کام دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔یعنی “نہاتی دھوتی رہ گئی اتے مکھی بہہ گئی” مگر ایسا قطعاً ممکن نہیں عمران خان حکمرانوں کی کرپشن پر کسی قسم کا کمپرو مائز کرنے کو تیار نہ ہیں اوراڑیل گھوڑے کی طرح ہر صورت دھرنے پر مصر ہیں ادھر جو کوئٹہ میں پولیس ٹرینگ سکول پر دہشت گردوں کا بزدلانہ حملہ ہو گیا جس سے پانچ درجن سے زائد جوان پولیس کیڈٹ شہید اور 161شدید زخمی ہو گئے تو اس پر سبھی سیاستدانوں کی طرف سے وہ موثر احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا جس کی قوم توقع کر رہی تھی۔

انہوں نے اپنی اندرونی ناپاکیوں کا اظہار کرنے اور سیاسی محاذ آرائیوں سے گریز نہیں کیا اور ایک دوسرے کو ملک دشمن ،سیکورٹی رسک تک کہہ ڈالاہے۔عمران نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ نوازشریف بھارت اور اسرائیل سے مل کر پاکستانی افواج کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔بلاول بھٹو کے ٹویٹ کا بھی میڈیا پر بہت تذکرہ ہوا”ہتھ نہ پہنچے تھو ہ کوڑی” انہوں نے وزیر دفاع کو فوراً اپنی سیٹ سے ہٹ جانے کو کہا جو ان دہشت گردوں کو پکڑنے میں وقت نہیں دے سکے جبکہ عمران خان کے خوب لتے لیتے رہے۔عمران خان کا دھرنا دینا تو جمہوری حق ہے مگر مرکزی حکومت کے سیکریٹریٹ کو بند کرنا اس پر لشکر کشی کو لوگوں نے ناپسند کیا ہے۔

Imran Khan

Imran Khan

پھر عمران خان کو اینکروں نے بتھیراپو چھا کہ دس لاکھ آدمیوں کے رفع حاجت واش رومز کا کیا انتظام ہو گا خصوصاً خواتین اور نوجوان بچیوں کا۔جو کہ نہ مجمع سے نکل کر کہیں جاسکتی ہیں اور نہ ہی کسی سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر چھوٹی یا بڑی رفع حاجت کرسکتی ہیں۔ دس لاکھ افراد کے لیے کم ازکم ایک لاکھ غسل خانوں اور لیٹرینوں کی لازماً ضرورت پڑے گی عمران خان اپنا شوق ضرور پورا کریں مگر پہلے انہی سڑکوں پلاٹوں میں ان کی عارضی ہی تعمیر کروادیں خواہ دینی جماعتوں کے اجتماعات کی طرح ٹینٹوں کی ہی صورت میں ہو ۔وگرنہ دس لاکھ کے مجمع کا مخالف رد عمل بھی ہوسکتا ہے اس محاذ پر دھرنا میں شامل جماعتوں کی شاید نظر ہی نہ ہے۔عمران خان کایہ کہنا کہ آزادی کے لیے قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں اس میں کوئی شک بھی نہیں۔

چائنہ میں مائوزے تنگ کا لانگ مارچ 32سال تک جاری رہا اور اس میں کروڑوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ مگر ادھر تو صاحب بہادراور قریبی ساتھی اہم عہدیدار تو ائیر کنڈیشنڈ کنٹینر میں بند رہیں گے جہاں پر جدید ترین ہمہ قسم سہولتیں مہیا ہیں باہر جوتیاں چٹخاتے غریب ورکروں اور خواتین تک کا خدا ہی حافظ ہے پھر یہ کہنا کا یاتو تلاشی دیں یا پھر استعفیٰ دیں یہ پاکستانی سیاستدان ہیں جو مرتے دم تک پارٹی کی صدارت نہیں چھوڑتے تو قبضہ شدہ کرسی کون چھوڑتا ہے اور وہ بھی شریف خاندان جس کے درجن کے قریب افراد اس سیٹ کے امیدوار ہیں اور مکمل تیاریاں کر رہے ہیں ۔ویسے بھی ہمارے ملک کی سیاسی روایات کے مطابق باپ سے بیٹا بیٹی بیوی سے خاوند حتیٰ کے مقتدر افراد کے بھائی بہن کو تخت پر براجمان ہونا ہوتا ہے اور ہمارے ہاں یہی بادشاہانہ نام نہاد جمہوریت رائج ہے کہ اگر ایسا نہ ہوسکے توجو ڈھیروں مال متال اقتدار میں کمایا تھا اس کا ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ رہتا ہے اسی لیے تو باری باری کا کھیل زرداری اور شریفوں نے شروع کر رکھا ہے۔

PML-N

PML-N

پاکستانی پچیس تیس سالوں سے انہی خاندانوں کی غلامی کر رہے ہیں درمیان میں مشرف نے قبضہ کر کے ان سے جان چھڑوائی تھی مگر اس وقت بھی گجراتی چوہدری ڈکٹیٹر کے ساتھی اور پھر خود بڑے آمر بن بیٹھے۔پورے ملک کی انتظامیہ ان کی آنکھ کے اشارے پر ناچتی رہی اور بڑے سامراج امریکہ کا یہ کمال تو یاد ہے نہ کہ راتوں رات شوکت عزیز جیسے شخص کو حکماً وزیر اعظم نامزد کر کے بھیج دیا۔جس کا پاکستانی شناختی کارڈاور پاسپورٹ تک بھی نہیں تھا۔اب دہشت گرد تو کوئٹہ کے علاوہ پشاور اور لاہور و دیگر جگہوں پر بھی مکمل سر گرم ہیں اور پولیس و سرکاری افسران پر بزدلانہ حملے کرہے ہیں مگر ہمارے جغادری سیاستدان ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے زور آزمائیاں کر رہے ہیں اگر دس لاکھ افراد اسلام آباد پہنچے ہجوم میں دہشت گردوں نے چند خود کش بمبار بھیج دیے تو کیا بنے گا ؟جو قیامت ابھی صدیوں دور ہے وہ ملک میں ابھی سے آن پہنچے گی ۔بڑے ہجوموں میںاگر بھگدڑ مچ جائے تو کئی شہید اور کئی کچلے جاتے ہیں۔

اگر دس لاکھ پر تشدد کیا گیااور یہ بپھر گئے تو کون کنٹرول کرے گا۔سرکاری افسران ،ان کے لواحقین ،بیوی بچوں کا کیا بنے گا؟ پولیس والے بھی کچلے جائیں گے غرضیکہ ملک غیر قانونی، غیرآئینی ریگستان کا روپ دھار جائے گا۔ہمارے سیاستدان سبھی عمران خان سمیت اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں جس کی عوام میں ذرا پذیرائی ہو جاتی ہے وہ بگٹٹ گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی طے شدہ سمت میں دوڑنے لگتا ہے۔

ن لیگ کو تو ہر صورت جانا ہی ہے عمران خان تو آ ہی نہیں آسکتا سبھی سے مکمل مخالفت لے رکھی ہے تو پھر کیا ہو گا اسی ملٹی ملین سوال کا جواب نہیں مل رہا جواب سادہ ہے کہ یا تو خود کشیاں خود سوزیاں کرتے بھوکوں مرتے افراد اللہ اکبر اللہ اکبر کی بنا پر اٹھنے والی تحریک ا س کی خانہ پری بذریعہ الیکشن کر سکتی ہے۔یا پھر ہمارے “پرانے مہربان “مجبور ہوکر قابض ہوں گے کہ یہ تو آپس کی سر پٹھول کرتے ہوئے عوام کی لاشوں تک پہنچ چکے ہیں۔دونوں ہی صورتوں میں عمرانی صنعتکار جاگیردار ،نودولتیے سود خور سرمایہ دار ہوں یا دوسری پارٹیوں کے کرپشن کنگز کسی کو کوئی معافی نہیں ہو سکے گی رہے گا نام صرف اللہ کا۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری