فرینکفرٹ (جیوڈیسک) جرمنی سے سیاسی پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدری تیز کرنے کے لیے ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں نے ایک قانونی بل منظور کر لیا ہے۔ اس بل میں الجزائر، تیونس، مراکش اور جارجیا کو ’محفوظ‘ ممالک قرار دے دیا گیا ہے۔
سیاسی پناہ سے متعلق قوانین میں ترامیم کا یہ بل وفاقی جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ نے منظور کیا۔ اس بل کو کثیرالجماعتی وفاقی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں سی ڈی یو، سی ایس یو اور ایس پی ڈی کی حمایت حاصل تھی۔ تاہم عوامیت پسند سیاسی جماعت اے ایف ڈی اور ایف ڈی پی کے ارکان نے بھی اس بل کی حمایت میں ووٹ دیا۔ صرف بائیں بازو کی جماعت دی لنکے اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی نے اس قانونی بل کی مخالفت کی۔
نئے ضوابط کے تحت الجزائر، مراکش، تیونس اور جارجیا کو محفوظ ممالک قرار دے دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد ان ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد کے لیے جرمنی میں سیاسی پناہ کا حصول مزید دشوار ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں ان ممالک کے شہریوں کی جرمنی سے ملک بدری بھی آسان ہو جائے گی۔
رائے شماری سے قبل سیاسی پناہ کے ملکی قوانین میں ترامیم کا یہ بل پارلیمان میں متعارف کراتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کا کہنا تھا کہ یہ مجوزہ ترامیم ایک ایسی صورت حال کا اعتراف ہے، جو پہلے ہی سے ایک حقیقت ہے۔
ہورسٹ زیہوفر کے مطابق ان چاروں ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کی جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح نہایت کم ہے۔ مثال کے طور پر مراکش سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کی صرف 2.3 فیصد جب کہ جارجیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی محض 0.3 فیصد درخواستیں منظور ہوئی تھیں۔
جرمنی میں مقیم مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام سے ہے جو کل تارکین وطن کا قریب پینتیس فیصد بنتے ہیں۔ تاہم کُل جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بیس فیصد ہے۔ سن 2017 میں تینتیس ہزار سے زائد شامی مہاجرین مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
بائیں بازو کی جماعت دی لنکے اور جرمن ماحول پسندوں کی گرین پارٹی نے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے تجویز کردہ اس بل کی حمایت سے انکار کر دیا تھا۔ ان جماعتوں کے مطابق سیاسی پناہ کے قوانین میں کی جانے والی ان ترامیم کا مقصد پناہ کے نظام میں کوئی اصلاح کرنا تھا ہی نہیں۔
گرین پارٹی کی مہاجرت سے متعلق امور کی خاتون ترجمان لوئزے آرمٹسبرگ کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں اس ایوان میں بحث کے دوران سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ جرمن عوام کو یہ باور کرایا جا رہا تھا کہ ان چاروں ممالک کو محفوظ قرار دے دینے سے سیاسی پناہ کے ملکی قوانین میں موجود تمام خامیاں دور ہو جائیں گی۔‘‘
گرین پارٹی کی اس ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ کے درخواست گزاروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور حالیہ برسوں کے دوران ترامیم سے قبل ہی ان ممالک کے شہریوں کی ملک بدری میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔
’بنڈس ٹاگ‘ جرمن پارلیمان کا ایوان زیریں ہے اور وہاں سے منظوری کے بعد اب اس بل کو ’بنڈس راٹ‘ یا وفاقی پارلیمان کے ایوان بالا میں پیش کیا جانا ہے۔ ایوان بالا میں جرمنی کی تمام سولہ وفاقی ریاستوں کے نمائندے موجود ہوتے ہیں۔ گرین پارٹی نو وفاقی صوبوں میں مخلوط حکومتوں کا حصہ ہے۔ اس لیے اس جماعت کی تائید کے بغیر ایوان بالا میں اس بل کی منظوری میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ سن 2017 میں بھی گرین پارٹی کی حمایت نہ ملنے کے سبب ایسا ہی ایک بل منظور نہیں ہو سکا تھا۔