ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ اپوزیشن کے دل میں ہمارے وزیرِ اعظم کی محبت اتنی کُوٹ کُوٹ کر بھری ہے کہ اب اُسے جدائی کا ایک لمحہ بھی گوارا نہیں۔ قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا آنکھیں ترس گئیں کہ ایوانِ وزیرِ اعظم کا دروازہ کھُلے اور وزیرِ اعظم (چھَن سے) پارلیمنٹ میں آ جائیںاُنہوں نے یہ بھی کہا ہمیں لیڈر کی ضرورت ہے، وزیرِ اعظم آ کر کہیں کہ وہ ہمارے لیڈر ہیں۔ پیپلز پارٹی اُن کے ساتھ ہے اللہ ہمارے وزیرِ اعظم کو نظرِ بَد سے بچائے، اتنی مقبولیت تو دیکھی، نہ سُنی۔ کیا ہی اچھّا ہوتا کہ جب سیّد خورشید شاہ تقریر فرما رہے تھے توبَیک گراؤنڈ میں مدھر دھنوں کے ساتھ یہ گانا بھی چل رہا ہوتا اکھیاں اُڈیک دِیاں، دل واجاں مار دا آ جا پردیسیا ، واسطہ ای پیار دا
لیکن شاید ایسا مصلحتاََ نہیں کیا گیا کیونکہ خطرہ تھا کہ کہیں بلاول زرداری ٹویٹر پر یہ آہ و بَکا شروع نہ کر دیں کہ پارلیمنٹ کو پنجابی ثقافت اجاگر کر نے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ویسے تو بلاول کے ہونٹوں پر کبھی پنجاب کا نام نہیں آیا۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں ”مَرسوں مَرسوں، سندھ نہ دیسوں لیکن اگر کبھی کسی سَر پھرے نے سندھی ٹوپی اور اَجرک کے مقابلے میں پنجابی پَگ اور دھوتی کا دِن منانے کی ٹھان لی تو بلاول کیا پوری پیپلز پارٹی اِس لسانیت کے خلاف تلواریں سونت کر باہر نکل آئے گی۔ سچ ہے کہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔
کسی شخص نے دوسرے سے پوچھا کہ شیر انڈے دیتا ہے یا بچے؟ دوسرے شخص نے جواب دیا شیر جنگل کا بادشاہ ہے، اُس کا جب جی چاہتاہے انڈے دے دیتا ہے اور جب جی چاہے بچّے پیپلز پارٹی بھی بادشاہ ہے اور بادشاہوں کی جماعت رَوا اور نا رَوا کی تفریق وہی ہے جو پیپلز پارٹی کا مَن چاہے۔ وہ سندھی ثقافت کو اجاگر کر کے بہت مستحسن قدم اٹھا رہی ہے لیکن جاگ پنجابی جاگ جیسے نعروں پر چیں بچیں بھی بہت ہوتی ہے۔
Sheikh Rasheed
آمدم بَر سَرِ مطلب، نواز لیگ کے مجنونِ کُہنہ اپنے شیخ رشید صاحب بھی پارلیمنٹ میں خوب گرجے برسے۔ دراصل شیخ صاحب کو میاں نواز شریف پر غصہ ہی بہت ہے کیونکہ ہزار منتوں تَرلوں کے باوجود میاں صاحب ”تَرکِ تعلقات” پر اَڑے رہے اورشیخ صاحب نَویں مرتبہ وفاقی وزیر بننے سے بال بال بچ گئے ۔اگراِس ”تناظر” میں دیکھا جائے تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ حصولِ وزارت کے معاملے میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب شیخ رشید صاحب سے کہیں زیادہ ”پہنچی ہوئی شے ہیں لیکن مولانا کا ذکر بعد میں۔ شیخ صاحب نے پارلیمنٹ میں فرمایا کہ اگر کوئی رُکنِ اسمبلی چالیس روز تک غیر حاضر رہے تو اُس کی سیٹ خالی ہو جاتی ہے اِس لیے سپیکر صاحب وزیرِ اعظم کی غیر حاضری پر اپنا فیصلہ دیں سپیکر صاحب نے فرمایا کہ وزیرِ اعظم صاحب کی چھٹی کی درخواست آئی ہوئی ہے لیکن شیخ صاحب نے میں نہ مانوں کی رَٹ لگائے رکھی ۔لوگ کہتے ہیں کہ شیخ صاحب میاں نواز شریف صاحب کو دیکھے بنا اُداس ہو جاتے ہیں اِس لیے وہ بار بار اپنا مطالبہ دہراتے رہتے ہیں لیکن میاں صاحب کا خیال ہے کہ قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا ۔اُن کے سامنے مُرشد ملتانی کی مثال موجود ہے جو پارلیمنٹ کا کوئی اجلاس کبھی نہیں چھوڑتے تھے لیکن جب اعلیٰ عدلیہ کے ہاتھوں اُن کا جانا ٹھہر گیا تو بے وفا پارلیمنٹ میں سے کَس نَمے پُرسَد کہ بھیا کون ہو راجہ رینٹل کَم کَم ہی پارلیمنٹ کو اپنا دیدار کرواتے تھے اسی لیے اپنی مدت پوری کر گئے یہ الگ بات ہے کہ اُن کی وزارتِ اعظمی مدت ہی بقدرِ اشکِ بُلبُل تھی اسی فارمولے کے تحت اگر ہمارے وزیرِ اعظم پارلیمنٹ کو مکمل طور پر فراموش کر دیں تو پانچ سال پورے کرنے کی گارنٹی ہم دیتے ہیں۔
شاید اسی لیے ہمارے وزیرِ اعظم دو تہائی اکثریت کے باوجود بہت محتاط ہیں اور پارلیمنٹ سے دور دور ہی رہتے ہیں پارلیمنٹ سے کیا وہ تو اسلام آباد سے بھی دُور دُور رہنا ہی پسند کرتے ہیں ۔ویسے تو وہ اکثر بیرونی دَوروں پر ہی رہتے ہیں لیکن اگر پاکستان میں ہوں تو پھر بھی اسلام آباد کی بجائے مَری یا لاہور میں ہی پائے جاتے ہیں ۔قوم کے محبوب میاں صاحب خوب جانتے ہیں کہ اُنہیں جلاوطنی کا دُکھ کیوں جھیلنا پڑا اِس لیے وہ اپنا فارغ وقت پارلیمنٹ کی بجائے آرمی چیف جناب راحیل شریف کے پہلو میں گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اندریں حالات ہمارا پارلیمنٹ کو یہی مشورہ ہے کہ وہ میاں صاحب کا کھَہڑا چھوڑ دیں لیکن اگر پارلیمنٹ بضد ہے تو پھر اب اُنہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر۔
جب یہ افواہ اُڑی کہ جنابِ وزیرِ اعظم آج پارلیمنٹ کو اپنا دیدار کروانے والے ہیں تو تقریباََ سبھی ”عشاق”اپنی شکایات کی ”پوٹلیاں” باندھ کر پارلیمنٹ میں آ دھمکے۔ دیدہ و دِل فرشِ راہ تھے لیکن وزیرِ اعظم صاحب طَرح دے گئے۔ جس پر عشّاق نے شدید ترین احتجاج کیا ۔مجبوراََ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد کو یہ وعدہ کرنا پڑا کہ وزیرِ اعظم صاحب بہت جلد پارلیمنٹ کو اپنا دیدار کروائیں گے ہمیں یقین ہے کہ آنے والے دِنوں مین چوہدری نثار احمد صاحب بھی یہ کہتے پائے جائیں گے کہ وعدے قُرآن و حدیث نہیں ہوتے۔ محترم عمران خاں صاحب نے فرمایا کہ چوہدری نثار احمد صاحب کی نیت پر کوئی شَک نہیں لیکن اِس مشکل صورتِ حال میں ہمیں بھی اعتماد میں لیا جائے کیونکہ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔
دُکھی عمران خاں صاحب کو نواز لیگ نے جس مصیبت میں گرفتار کر دیا ہے وہ سمجھ میں آنے والی ہے۔ نواز لیگ خود تو پاسے ہو گئی اور ہمارے بھولے بھالے خاں صاحب کا ”مَتھا” اُس گھاگ سے لگا دیا جسے اقتدار کے بغیر ”بَد ہضمی” ہو جاتی ہے ۔جس طرح جَل بِن مچھلی نہیں رہ سکتی، اُسی طرح مولانا فضل الرحمٰن کی اقتدار کے بغیر ”تَڑپ پھَڑک” بھی دیدنی ہوتی ہے وہ ہر دَور میں اقتدار کے ایوانوں میں ہی گھومتے نظر آتے ہیں اور جو نہی اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ حکومتی کشتی منجدھار میں پھنس گئی ہے، وہ کشتی سے چھلانگ لگانے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ۔مولانا نے بہت تگ و دَو کی اور منت سماجت بھی لیکن نواز لیگ اُنہیں خیبر پختونخواہ کی حکومت سونپنے پر راضی نہ ہوئی ۔مولانا نے اقتدار کے بغیر پچھلے آٹھ ماہ جس عالمِ کَرب میں گزارے اُس کا اندازہ صرف مولانا ہی کر سکتے ہیں۔ مولانا کا خیال تھا کہ اگر خیبر پختونخواہ کی حکومت نہیں تو میاں برادران کم از کم اتنے ”بَد لحاظ” تو ہر گز نہیں ہو سکتے کہ اُنہیں مرکزی وزارتوں میں حصّہ بھی نہ دیں لیکن نواز لیگ طَرح دیتی رہی اور مولانا صاحب کی بے چینی کا یہ عالم رہا کہ بستر کی ہر شکن سے پوچھ اُس کی بے قر اری کاٹی ہو رات جس نے کروٹ بدل بدل کے
نواز لیگ جب طالبان کے معاملے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچ گئی، تب اُسے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا مُنہ بند کرنے کی ضرورت پیش آئی اور اُس نے مولانا صاحب کے آستانۂ عالیہ پر دو وزارتوں کا ”چڑھاوہ”چڑھا دیا اب مولانا کی جمیعت علمائے اسلام مرکزی حکومت کا حصّہ ہے اور حکومت طالبان کے خلاف آپریشن کرنے جا رہی ہے۔ مولانا صاحب کو مسلہ یہ درپیش ہے کہ اگر وہ ڈَٹ کر آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں تو مرکزی وزارتیں بھی ہاتھ سے جاتی ہیں اور کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی بھی۔ اِس کے علاوہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کے حصول کا خواب تو پورا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت سے طالبان کے خلاف آپریشن نہ کر نے کا مطالبہ کرتے ہوئے مولانا کی زبان میں مٹھاس پیدا ہو جاتی ہے اور لہجہ درخواست گزار کا سا لیکن تحریکِ انصاف کے خلاف بات کرتے ہوئے مولانا کی زہرنا کی اپنی انتہاؤں کو چھونے لگتی ہے۔
ویسے مولانا صاحب ہیں بڑے کائیاں اور چو مُکھی لڑائی کے ماہر۔وہ ایک طرف تو مرکزی حکومت میں شامل ہیں جبکہ دوسری طرف حفظِ ما تقدم کے طور پر خیبر پختونخواہ میں پیپلز پارٹی اور ANP کے ساتھ مل کر تحریکِ انصاف کے خلاف ”متحدہ محاذ” بنانے کی تگ و دَو بھی کر رہے ہیں بلدیاتی انتخابات میں تحریکِ انصاف کے خلاف متفقہ امیدوار کھڑے کرنے کے لیے خیبر پختونخواہ میں پیپلز پارٹی، اے این پی اور جمیعت علمائے اسلام کا مشترکہ اجلاس ہو چکا ہے اور اِن جماعتوں کے اکابرین حتمی نتیجے پر بھی پہنچ چکے ہیں۔ یہ پیغام ہے مولانا کانواز لیگ کے لیے کہ تُو نہیں، اور سہی۔