پنجاب اسمبلی میں کئی سالوں سے اپنی ترقی کے انتظار میں متعدد ملازمین نے اسمبلی سیکرٹریٹ سے مایوس ہو کر اپنے آئینی حقوق اورانصاف کے حصول کے لئے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیاہے ،انہیں سابق دور حکومت میں بھرتی کئے گئے متعدد سفارشیوںنہ صرف میرٹ سے ہٹ کر بھرتی کیا گیا ہے بلکہ انہیں ترقی کے منتظر ملازمین پر سنیارٹی بھی دیدی گئی ہے جبکہ دوسری طرف اسمبلی حکام کی طرف سے ملازمین کی محکمانہ ترقیوں میں تاخیر کی وجہ سے کافی مایوسی پائی جاتی ہے ۔سابق سپیکر چوہدری محمد افضل ساہی کے دور میں جن اسمبلی ملازمین کو سیاسی رشوتوں اور اقربا پروری کے ذریعے نوازا گیا
ان میں پنجاب اسمبلی کی ایڈیشنل سیکرٹری علی عمران رضوی ہیں یہ 1999ء میں بطور ریسرچ آفیسر 17 ویں گریڈ میں بھرتی ہوئے اور سابق صوبائی وزیر اختر حسین رضوی کے بھتیجے ہونے کی وجہ سے انہیں اناً فاناً ترقیاں دیکر انہیں 2007ء میں 19ویں گریڈ میں بطور ایڈیشنل سیکرٹری پنجاب اسمبلی کے عہدے پر تعینا ت کردیا گیا ،جبکہ علی عمران کے ساتھ ہی بھرتی ہونے والی عبیدہ ہارون سفارش نہ رکھنے ی وجہ سے آج بھی اسی گریڈ میں کام کررہی ہیں ۔اسی طرح میرٹ سے ہٹ کرتر قیوں کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ ایسے ہی ایک اور آفیسر عنایت اللہ لک17ویں گریڈ میں بطور لائیبریرن 1997ء میں تھے اسی سال انہیں 18واں گریڈ دیدیا گیا 2004ء میں ایک نئی سیٹ پیدا کرکے انہیں بطور ریسرچ اینڈ پبلیکیشن آفیسر 19 گریڈ میں ترقی دیدی گئی اور 2007ء میں زمید ایک نئی سیٹ پر انہیں بطور ڈائریکٹر جنرل ریسرچ اینڈپارلیمانی آفیئرز آفیسر گریڈ 20میں ترقی دیدی گئی اور ان کا کیڈر ہی تبدیل ردیا گیا
اسی طرح عامر حبیب کو 17ویں میں سے بطور ڈپٹی سیکرٹری 18ویں میں قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ترقی دیدی گئی ۔سابق سپیکر نے اپنے ہی ایک چہیتے عامر لیاقت چٹھہ کوبطور ڈپٹی ڈائریکٹر اور خالد شہزادکو بطور چیف پروٹوکول آفیسرقواعد و ضوابط کو ملیا میٹ کرکے ڈائریکٹ 18گریڈ میں بھرتی کیا اور خالد شہزادکے ملک سے اہر چھٹی پر جانے کی وجہ سے عامر لیاقت چٹھہ جگہ بطور چیف پروٹوکول آفسرسآرڈر جاری کردیے گئے ۔سابق سپیکر کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے جس سیٹ کے لئے جو بندہ بھی بھرتی کیا اسے وہ کام ہی نہیں آتا ۔لطف کی بات یہ ہے اگر کوئی اسٹینو ٹائیپسٹ بھرتی ہوا ہے تو اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ شارٹ ہینڈ کیا ہوتی ہے۔27ستمبر2007ء کو اسسٹنٹ سیکرٹری پنجاب اسمبلی کی سیٹ خالی ہو گئی تھی جس پر رولز کے مطابق ترقی کی انتظار میں پہلے سے موجود شخص کو ترقی دی جاتی ہے
Court
لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ سابق سپیکر جن کے بارے میں یہ مشہور ہے اور یہ عدالت کے بھی ان کے بارے میں یہ ریمارکس ہیں کہ وہ آئین اور قانون سے نابلد تھے نے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے تہمینہ تابش اور فیصل بلال بٹر جو کہ کنٹریکٹ پر بھرتی ہوئے تھے انہیں ریگولر کرکے اسسٹینٹ سیکرٹری کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ۔اور ان دونو ں کو ڈی پی سی کے بغیرہی ریگولر کیا گیا تھا اور اس سیٹ کے اصل حق دارنعیم اختر جو عرصہ تقریباً 19سال سے خدمات سرانجام دے رہا ہے میرٹ کے مطابق جب ترقی کا نمبر آیا تو اس کے ساتھ ناانصافی کی گئی جبکہ یہ25جولائی 2007کو محکمانہ امتحان برائے ترقی اسسٹنٹ سیکر ٹری اوّل پوزیشن میں پاس کرچکا ہے اسکی سالانہ رپو رٹ کا رکردگی بھی درست تھی اور شرائط مدت بھی پو ری تھیں اوراس کے خلاف کوئی انکوائری بھی نہ تھی مگر سابقہ دور کے ارباب اختیار نے اسے پیچھے کر کے بعد میں آنیوانے کنٹریکٹ پر بھر تی کئے گئے
افسران کو سنیئر کر دیااور بغیر کسی معقول جواز کے دفتر ہذا نے میری ترقی کے کیس کو مورخہ 15 ستمبر 2007 کو منعقد ہونے والی DPC- iکی میٹنگ میں پیش نہ کیا صرف پسند اور نہ پسند کی بنیاد پر انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی اور اسے حق سے محروم کر دیا گیا۔ مورخہ 3 نومبر 2007 کے نو ٹیفکیشن کے تحت معاہداتی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے 202 افسر ان /واہلکار ان کو قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ، اخبار میں اشتہار دیئے بغیر اور DPC کی میٹنگ اسمبلی سیکرٹریٹ میں منعقد کئے بغیر ادارہ ہذا میں ان کی سروس کو مستقل کر دیا گیا۔ جبکہ رولز کے مطابق” بھرتی یا مستقل کئے جانے کے وقت محکمہ میں اگر کوئی اہل موجود ہوتو پہلے اس کا حق پہلے ہے اور بعد میں دوسرے آنے والوں کو بھر تی یا مستقل کرنے کے لیے زیر غور لایا جائے گا
(صوبائی اسمبلی پنجاب رولز 1986 کے پارٹ iii باعنوان بھرتی رول 5 کے سب رول 3کے ساتھ ملا کر پڑھیں ) مگر اسمبلی رولز کی پرواہ کیئے بغیر غیر قانو نی مشق کو پر وان چڑھا یا گیا اس طر ح معاہداتی بنیادوں پر بھر تی ہونے والے دو اسسٹنٹ سیکر ٹریز مسٹر فیصل بلال اور مس تہمینہ تابش جن کا تعلق فیصل آباد سے ہے ان کو نعیم اختر سے پہلے مستقل کر دیا گیا، حکومت پنجاب کی کنٹریکٹ پالیسی برائے 2004 کے رول Viii کے سب سیکشن 1 تا 7 کو ملا کر پڑھیں تو اس میں صاف درج ہے کہ بنیادی حقوق کے تناظر میں آئین پاکستا ن کے آرٹیکل 25اور 27 کے مطابق ہر شہر ی کو بلا امتیاز برابر ی کے مواقع فراہم کئے جائیں اور اس کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔
مزید برآں سپر یم کورٹ آف پاکستان کے کیس نمبر 104 کے فیصلے مورخہ 19 جنوری 1993 کی روشنی میں حکم کیا گیا ہے، کہ چاہیے ایڈ ہاک ہویا کنٹریکٹ کی ملازمت ہو، ملک کے دو مشہور اخبارت، میں اشتہا ر کے بغیر بھرتی ممکن نہ ہے اگر ایسا کیا گیا تو انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تصور کی جائے گی۔یہ عرصہ ایک سال سے PST میں حق کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اور اس کا نا م سینیارٹی لسٹ میں سیریل نمبر 5 کی بجائے 7پر درج کر دیا گیا ہے اس طرح پنجاب اسمبلی کے درجنوں ملازمین اپنی ترقی کے انتظار میں اسمبلی حکام کی طرف سے ملازمین کی ترقیوں میں تاخیرسے مایوس ہوچکے ہیں اور انہوں نے اب عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔