ایک تخیلاتی سیاسی جماعت کا خاکہ

Imran Khan

Imran Khan

پاکستان کی”حاضر سٹاک” سیاسی جماعتوں کی انتہائی مایوس کُن کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ذہن میں بار بار ایک ہی سوال اُبھرتا ہے کہ اب اِس سیاسی خلا کو کون پُر کرے گا؟۔ ہمیں محترم عمران خاں کی کم از کم اِس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ آسمان سے فرشتے تو اُترنے سے رہے ، گزارہ تو انہی لوگوں کے ساتھ کرنا ہو گا۔ اس لیے ”عالمِ بَد دِلی ”میں سوچتی ہوں کہ کیوں نہ تمام سیاسی جماعتوں کے چیدہ و چنیدہ لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جائے۔ اگر شیخ رشید ، فیصل رضا عابدی ، ذوالفقار مرزا ، رانا ثناء اللہ اور اِن جیسے کچھ دوسرے لوگ مان جائیں تو یقیناََ ایک ایسی عظیم الشان سیاسی جماعت معرضِ وجود میں آ سکتی ہے جس کا ڈسا پانی بھی نہ مانگے۔ وجہ یہ کہ شیخ رشید اونچے سُروں میں ایسی ”لمبی لمبی” چھوڑتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، ذوالفقارمرزا کو اپنی بات منوانے کا فَن آتا ہے ۔ اگر کوئی یقین کرنے سے ہچکچائے تو وہ فوراََ قُرآنِ پاک سر پہ رکھ کر قائل کر لیتے ہیں۔

فیصل رضا عابدی لفظوں کی ایسی زنجیر بناتے ہیں کہ مجال ہے جو کوئی اِس زنجیر کو توڑ کر اُن کی گفتگو کے اندر گھُس سکے ۔اُن کی تو ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ ”وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی” اور اپنے رانا ثناء اللہ فیصل آبادی نے ”تیلی” لگانے میں پی ایچ۔ڈی کر رکھی۔ویسے بھی یہ اصحاب الیکٹرانک میڈیا میںہمیشہ ”اِن” رہتے ہیں اور جیسے ہماری کوئی حکومت امریکی مدد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی ، اسی طرح کوئی سیاسی پارٹی الیکٹرانک میڈیا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ۔ہمارا ”کرشمہ ساز ” الیکٹرانک میڈیا چاہے تو کسی کو آسمان کی رفعتوں تک پہنچا دے اور چاہے تو پاتال میں گرا دے ۔

Raja Riaz

Raja Riaz

پارٹی کے اراکین پر ”رُعب شُعب ” ڈالنے کے لیے راجا ریاض کی ”پہلوانی خدمات” حاصل کی جا سکتی ہیں ۔اُنہیں جماعت کے ”عسکری ونگ” کا انچارج بنانا بھی ثمر آور ہو سکتا ہے ۔آئینی موشگافیوں کے لیے شریف الدین پیر زادہ سے بہترکوئی نہیں۔وہ آجکل پرویز مشرف کو آئینی تلوار سے صاف بچا لے جانے کی تگ و دَو میں ہیں لیکن اُمید ہے کہ نئی پارٹی کی تشکیل تک وہ فارغ ہو جائیں گے۔پیر زادہ صاحب آئین کے اندر ہمیشہ ایسی راہ نکال لیتے ہیں جس سے ڈکٹیٹر نہال ہو جاتے ہیں ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اچھّے بھلے عقلمند زرداری صاحب نے پیر زادہ صاحب کی خدمات حاصل کرکے اپنے وارث بلاول کو اصلی اور آئینی ”بھٹو” کیوں نہیں بنا لیا ۔اگر وہ بَر وقت ایسا کر لیتے تو نقلی بھٹو ”بلاول ”کے مقابلے میں اصلی بھٹو ” فاطمہ ” کی کمر کَس کے میدان میں اُتر نے کی نوبت نہ آتی۔

اپنی اور بیگانی خواتین کو ”سیدھا” کرنے کے لیے محترمہ فردوس عاشق اعوان انتہائی مناسب ہیں۔عدلیہ کو ”راہِ راست” دکھانے کے لیے ڈاکٹر با بر اعوان کا ”منت ترلا ” کیا جا سکتا ہے البتہ اُن سے یہ ضرورکہا جائے گا کہ وہ اشعار کے جا و بے جا استعمال سے گریز کریں ۔ہمارے سیکولر بھائی تو یہ ماننے کو ہر گز تیار نہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا ۔اُنہوں نے قائدِاعظم کی صرف 11 ستمبر 1948ء والی تقریر رَٹ رکھی ہے جس میں قائدِ اعظم نے غیر مسلم اقلیتوں کی مکمل معاشی ، معاشرتی اور مذہبی آزادی کا اعلان کیا تھا لیکن یہ یاد نہیں کہ قائد نے سینکڑوں مرتبہ یہ کہا کہ وہ ایک ایسے ملک کے حصول کی جدو جہد کر رہے ہیںجسے مسلمان اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کر سکیں ۔ہم نے یہی سُنا ، پڑھا اور لکھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔۔ لاالہ الا للہ ۔ اِس لیے ہماری سیاسی جماعت میں ایک ایسی قَد آور مذہبی شخصیت کی بہرحال ضرورت ہے جو ”سیاست نہیں ، ریاست بچانے” کی تَگ و دَو کرے ۔

کیا وہ مذہبی شخصیت شیخ الاسلام حضرت مولانا ڈاکٹر طاہر القادری کے سوا بھی کوئی ہو سکتی ہے؟۔ڈاکٹر صاحب کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے لاکھوں مریدوں کے زور پر جب اور جہاں جی چاہے اِس بگڑی ”نسلِ نَو” کو سیدھا کر سکتے ہیں ۔ویسے تو یہ کام طالبان سے بھی لیا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنے سے ایک تو امریکہ کی ناراضی کا خطرہ ہے جو ہم مول نہیں لے سکتے اور دوسرے طالبان اپنی کلاشنکوفوں سمیت آئیں گے اور ہم ٹھہرے تھوڑے ڈرپوک ۔ یہ الگ بات کہ پرویز مشرف کی طرح ”ہم بھی ڈرتے ورتے کسی سے نہیں” ۔

جی تو بہت چاہتا ہے کہ ہم مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو بھی اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ملک و قوم کی” بہتری ”کی خاطرمولانامان بھی جائیں گے لیکن وہ پارٹی کی صدارت سے کم پر راضی نہیں ہونگے جبکہ ہمارے نزدیک اِس عُہدے کے لیے محترم الطاف حسین سے بہتر کوئی نہیں کیونکہ ایک تو اُن کی ”اوئے جاگیر دارا” ٹائپ تقریروں سے بڑے بڑوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور دوسرے وہ اُس دیس کے باسی ہیں جس کی غلامی پر ہمیں آج بھی ناز ہے ۔مولانا فضل الرحمٰن کی ”بابرکت” خدمات سے مستفید ہونے کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ تحریکِ انصاف کی طرح ”حسبِ ضرورت” چیئرمینی” کے ساتھ صدارت کا عہدہ بھی تشکیل دے دیا جائے لیکن مولانا صاحب محترم جاوید ہاشمی کی طرح بے اختیار صدارت ہر گز قبول نہیں کریں گے ۔اِس کے علاوہ چونکہ مولانا صاحب کے ہاتھوں پارٹی کے ”ہائی جیک” ہونے کا خطرہ بھی ہر وقت سَر پر منڈلاتا رہے گا اِس لیے الطاف حسین ہی بہتر ہیں کیونکہ اُن کا تا دَمِ زیست پاکستان آنے کا کوئی خطرہ نہیں ۔وہ انگلینڈ میں بیٹھ کے بڑھکیں لگائیں گے اور ہم پاکستان میں فائدہ اُٹھائیں گے۔رہی پارٹی کا نام رکھنے کی بات تو ہم نے اپنی پارٹی کا نام ” ہلّا گُلّاپارٹی” سوچ رکھا ہے ۔پہلے ہم نے ”پھڈے باز پارٹی” سوچا تھا لیکن یہ کچھ غیر پارلیمانی سا لگا اِس لیے اُسے تَرک کر دیا۔

ابھی میں نے اپنی یہ تجویز اپنے میاں کے سامنے رکھی ہی تھی کہ ہوٹل والے ”مسٹر شریف” ساگ لے کر آ گئے ۔ساگ ہماری بچپن ہی سے کمزوری ہے اور شریف کے گھر کے پکے ہوئے ساگ میں تو اُس کے خلوص کی مہک بھی شامل تھی لیکن باتیں وہ ”کڑوی کسیلی” کر گئے ۔میرے میاں نے جب میری یہ ”ارسطوانہ” بلکہ ”افلاطونی” تجویز شریف کے سامنے رکھی تو اُس نے تُرت جواب دیا کہ اتنا ”وخت” کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ یہ سارے کام تو عمران خاں صاحب کی تحریکِ انصاف پہلے ہی سر انجام دے رہی ہے ۔اُن کے جلسے جلوسوں میں ہلّا گُلّا بھی ہوتا ہے اور دھوم دھڑکا بھی ، وہاں دھمال بھی ڈالی جاتی ہے اور میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے ۔اُس نے کہا کہ شیخ رشید تو پہلے ہی ہمہ وقت خاں صاحب کے پہلو میں پائے جاتے ہیں اورمولانا طاہر القادری سے خاں صاحب ویسے ہی متاثر ہیں ۔

اِس لیے نئی پارٹی بنانے کی بجائے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ مجوزہ پارٹی کے ”اعلیٰ دماغوں” کو بھی تحریکِ انصاف میں شامل کر لیا جائے۔شریف کے اِس مشورے کو سُن کر میں جَل بھُن کے ”سیخ کباب” ہو گئی اور اُسے کھَری کھَری سنانے کو جی تو بہت چاہالیکن ایک تو گھر آئے مہمان کا احترام واجب تھا دوسرے یہ بھی کہ اُ س کے ساگ سے آئیندہ بھی لطف اندوز ہونے کی توقع تھی ۔اِس لیے اُسے میں نے کوئی سخت جواب نہیں دیا ۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر