تحریر : نجم الثاقب تارا میاں آج کافی عرصہ بعد ملاقات ہوئی۔ ملک صاحب موسم سہنا ہو تو دل چاہتا ہے کہ گھما پھرا جائے ۔ ہمارے زندگی میں ایک دوسرے کے لئے اب ٹائم ہی کب ہے ۔۔۔۔زندگی کے اتنے جمھیلے ہیں کہ بس نہ پوچھیں ۔ پروگرام بنایا کہ دوستوں کے ساتھ تفریجی کی جائے ۔۔۔ اسلام آباد اور راول پنڈی کے شہریوں کے لئے مری قدرت کا حسین تحفہ ہے ، صبح نکلے اور شام کو واپس گھر ۔ ملک صاحب گئے تو ہم تفریحی کرنے کے لئے گئےتھے لیکن وہاں اشیاء خودرنوش اور کھانے پینے کی قمیتیں سن کر ہمارے ہاتھ جیبوں میں ہی دبک کر رہ گئے۔ ملک صاحب خوبصورت نظاروں کے ساتھ مال روڈ پر گھوڑوں کی سیر کرنے کا لطف اُس وقت اور بھی دوبالا ہو جاتا ہے جب برف سے اُٹے ہوئے پہاڑوں سے ٹکرکر آنی والی ہواجسم و روح کوتازگی و توانا کر دیتی ہے ۔ایسے دل کش ماحول اور تفریحی گاہوں میں خوبصورت اور چست گھوڑوں کی سواری جہاں حسین یادوں کا حصہ بن جاتی ہیں۔
گھوڑوں کی سیر سے یاد آیا کہ ہمارے ملک میں گھوڑوں کا تذکرہ یا ایوانوں میں یا پھر کھانوں میں اکثر سننے اور دیکھنے میں ملتا رہتا ہے۔ گھوڑوں کی بہت سی صفات ایسی بھی ہیں جن کی وجہ سے ان کا ذکر خیر اکثر سیاست کے میدانوں میں ہوتا رہتا ہے۔سیاسی صحبت میں رہ کر بہت سے انسان گدھے کا رول بھی بنھاتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں ۔ خچر وگدھے نے ہماری زبان و سیاحت پر بھی بہت اثر ڈالا ہے اور ہمیں کہنے اور برتنے کو بہت سے محاورے ہیں ’’ضرورت پڑنے پر گدھے کو باپ بنالینا‘‘۔۔۔۔ یعنی ضرورت پڑنے پر خود غرض ، مطلب پرست جیسے شخص کو لالچ ، مفاد کے تڑکے سے کام نکلا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں گدھے کو باپ بنالینا ۔۔۔۔۔۔ گدھے کی کتنی عزت افزائی ہے لیکن گدھا بیچارا پھر بھی گدھا ہی رہتا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ سے ہارس ٹریڈنگ یعنی گھوڑوں کی خرید و فروخت کا بڑا چرچہ رہا ہے۔ یہ چار ٹانگوں والے اعلیٰ گھوڑے نہیں ہوتے بلکہ دو ٹانگوں انسانی چہروں والے کرپٹ ، ضمیر فروش اور فرضی گھوڑے ہیں جو اپنے قدر و قیمت بڑھانے کے لیے انسانی اصطبل میں اکٹھے ہوکر اپنے خریداروں کو دیکھ کر خوشی سے اُچھل کود کرنے لگتے ہیں۔ تاریخ کے ابواب میں سیاسی گھوڑوںکی کئی منڈی لگی ہیں ۔ “چھانگا مانگا ” جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی کرپٹ ترین منڈیتھی جس نے بعد میں اور آنے والے وقتوں میں کرپشن کی ایسی پریکٹس کی داغ بیٹھائی جس کے بعد سے آج تک الیکشن پروسیس اور انتخابات کے موقعوں پر سیاسی پارٹیاں ، جماعیتں اور افراد اپنے مفاد و فوائد حاصل کرنے کے لئےچھوٹی بڑی منڈیوں کا انعقاد کرتے ہیں۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہارس ٹریڈنگ کے مقابلے ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ رہیں ہیں۔
سینٹ کے انتخابات کے موقع پر سیاسی پارٹیوں کے نامزد امیدواروں کیساتھ آزاد امیدوار سامنے لائے جاتے ہیں جو ظاہر ہے اپنے لئے ووٹ ” سیاسی منڈی” سے ہی حاصل کرکے ایوان میں پہنچتے ہیں اور اس وقت قومی و صوبائی ممبران کی بولیاں کروڑوں میں سنائی دیتی ہیں۔ ایوان بالااور زیرین دونوں ایوانمیں کرپشن ، دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ کا عنصر موجود ہونا ہمارے لئے المیہ فکریہ ہے۔ پیپلز پارٹی دور حکومت کے ایک وفاقی وزیر نے برملا ٹی وی ٹاک شو میں کہا کہ کرپشنہمارا حق ہے تو نتیجہ پھر ہمارے سامنے ہے۔ جس سوسائٹی اور معاشرے میں اعلی اخلاقی اور معتدل معاشرتی اقدار ، رویے موجود ہوں گے وہاں یہ رویے اور اقدار ہر جمہوری عمل میں نظر آئیں گے اور جس میں ان کا فقدان ہو وہاں یہ فقدان ہر سطح پر عیاں ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم بحثیت قوم شفافیت، عدل، انصاف کو قائم رکھتے ہوئے ظاہری اور عملی رویے و کردار ایسے بنائے جس میں کرپشن ، عداوت اور بناوٹ نہ ہو تبھی ہی سے ایک عام شہری کی زندگی میں امن ، سکون اور خوش حال آئے گی اور ریاست کے اداروں پر شہریوں کا اعتماد قائم رہ پائے گا۔