لاہور (جیوڈیسک) ایک ایسے وقت میں جب حکومت کو کئی چیلنجز درپیش ہیں، وزیر اعظم نواز شریف نے طرز حکمرانی بہتر بنانے کے لیے کچھ دوستوں اور کاروباری شخصیات سے مشاورت کی ہے۔
جمعرات کی شام رائیونڈ میں ہونے والی اس ملاقات میں شامل ایک مہمان نے بتایا کہ تقریباً دو گھنٹوں تک جاری رہنے والی مشاورت میں کسی وزیر کو نہیں بلایا گیا۔ حتی کہ نواز شریف کی اندرونی کابینہ کے انتہائی اہم رکن سمجھے جانے والے وزیر اطلاعات پرویز رشید کی غیر حاضری بھی نمایاں نظر آئی۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ مشاورت کا دوسرا دور جلد ہی منعقد ہو گا۔نواز شریف کے دوستوں نے واضح الفاظ میں انہیں بتایا کہ وہ ہر صورت اپنی حکمرانی کے حوالے سے ون مین شو کا تاثر زائل کریں۔ انہیں یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنی ٹیم کی کارکردگی مزید بہتر بنانے کے لیے نئے چہروں کو سامنے لائیں۔
ایک دوست نے وزیر اعظم پر زور دیا ‘اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے وہ ملک کو انتہائی پستی سے نکالنے کے لیے کچھ نہ کچھ کریں’۔ اس کے علاوہ حکمران جماعت پی ایم ایل – ن میں اندرونی لڑائیوں پر بھی اعلی قیادت کو فوری توجہ دینے کا مشورہ دیا گیا۔
اس موقع پر وزیر اعظم نے تسلیم کیا کہ ان کے کچھ اقدامات مختلف حلقوں میں قبول نہیں کیے گئے اور یہ کہ مقامی اور غیر ملکی عناصر کی وجہ سے اگلے سال مارچ تک موجودہ صورتحال پیچیدہ رہ سکتی ہے۔ اگلے سال مارچ تک امریکا افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لے گا، امریکی کانگریس میں الیکشن کا انعقاد ہونا ہے جبکہ ملکی سٹیبلشمنٹ میں بھی کچھ تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔
مشاورت کے دوران وزیر اعظم کو یہ کہتے پایا گیا کہ پچھلے دو ادوار کے برعکس انہوں نے نچلے درجے کے امریکی عہدے داروں سے فاصلہ رکھا جس کی وجہ سے واشنگٹن خوش نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران کے پیچھے امریکی ہاتھ ہے۔
چودہ اگست کو پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مار چ کے حوالے سے وزیر اعظم نے دوستوں کو بتایا کہ وہ ہرگز کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھائیں گے جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ کی صورتحال پیدا ہو۔ شرکاء کو بتایا گیا کہ پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کو راغب کیا جا رہا ہے کہ وہ ‘جمہوریت کے لئے خطرہ’ بننے والے اقدامات سے پرہیز کریں۔
وزیر اعظم قائل ہیں کہ معمولی اقدامات کے ذریعے موجودہ ہیجان انگیز سیاسی صورتحال کو سنبھالا نہیں جا سکتا اور اسے نارمل کرنے کے لیے عمران خان کو کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑے گا، مثلاً پی ٹی آئی کو دونوں اطراف سے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق لانگ مارچ کرنے دیا جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کے لندن سے لوٹنے کے بعد کسی صورت بات چیت سے انکار پر نواز شریف تجسس کا شکار ہیں۔