ملک میں عوام بجلی، پانی اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء کو ترس رہے ہیں مہنگائی، بیروزگاری اور افلاس سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے جبکہ حکمران و سیاست دان اپنی خود نمائی کے چاقو سے عوام کا گلا کاٹنے میں مصروف عمل ہیں ملک کے بیشتر علاقے سیلاب کی زد میں آ چکے ہیں اور حکمران اپنے ذاتی اثاثے محفوظ کرنے کو عوامی زندگیوں پر ترجیح دیتے نظر آتے ہیں اور اپنی تمام نااہلیوں کو چھپانے میں بہانوں سے کام چلا رہے ہیں یا تو حکمرانوں کے لبوں پر دہشتگردی کیخلاف جنگ کاورد جاری ہے حالانکہ وہ مکمل طور پر پاکستان آرمی کے سپرد ہے یا پھر حکمران جماعت اسلام آباد کے ریڈ زون میں جاری عوامی احتجاجی دھرنوں سے خائف نظرآتے ہیں اور اگر بات کریں دھرنے والوں کی تو عمران خان کی ذات پر تاحال کرپشن تو ثابت نہ ہو سکی۔
بہر حال ان کیخلاف حکومتی نمائندوں کی تنقیدی تلواریں کافی تیز نظر آتی ہیں اور عمران خان کے ہواریوں نے اُن کے گرد گھیرا کچھ اس طرح تنگ کر رکھا ہے کہ عام آدمی کی رسائی چیئرمین تحریک انصاف تک ممکن نہیں دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے حواری بھی ذاتی شناسائی والے لوگوں کے سوا کسی شخص کو ڈاکٹر صاحب تک پہنچنے نہیں دیتے اس معاملہ کو دیکھ کر دل میں ایک سوال اُٹھتا ہے کہ اگر اقتدار کے ایوانوں کیخلاف احتجاج کرنے والے ان لیڈروں تک عام آدمی کی رسائی خواب کی مانند ہے تو پھر ایوان کے اندر بیٹھے لوگ اگر اس عوام کو دہشتگرد یا خانہ بدوش کہیں تو کیا برائی ہے اور ان لوگوں کو جو پروٹوکول کو گناہ قرار دیتے ہیں شاید خبر ہی نہ ہو کہ عوامی رابطے سے کس قدر قطع تعلق ہو چکے ہیںاور دھرنوں میں موجود عوام ان کو قائدتسلیم کرتے ہوئے ان کے خطابات کو انکا حکم جانتے ہوئے۔
ہر ظلم کو سہتی جارہی ہے دوسری طرف عوامی مینڈیٹ کے حامل ہونے کا شور مچاتی حکومت جگہ جگہ رکاوٹیں لگا کر عوام کو پریشانیون سے دوچار کئے ہوئے ہے اور تشدد کے نتیجے میں کئی انسانی جانیں لیکر خود کو طاقتور محسوس کررہی ہے چند روز قبل اسلام آباد میں پاکستانی عوام کو جب پاکستان میں موجود ایک مقدس درگاہ جس کا نام وزیر اعظم ہاؤس ہے کی طرف جانے سے روکنے کیلئے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی تو قیادت میں سے محض عمران خان ماسک پہن کر کنٹینر کی چھت پر چکر لگاتے ہوئے نظر آئے جبکہ دوسری جانب معصوم بچوںاور عورتوں نے اس دھوئیں کی براہ راست اذیت برداشت کی اور اس کے بعد آپ سب نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ حکومتی وزراء کے بیانات جن کو سُن کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے دو ملکوں کے درمیان جنگ ہورہی ہو بعض تو ایسے بیانات تھے جن کو سُن کر روح تک شرمارہی تھی اور رہی سہی کسر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے نکال دی قارئین کرام میں آپکے علم میں اضافے کیلئے بتا دوں کہ پاکستانی چینلز جو سیٹلائٹ پر ہیں کم از کم 144 کے لگ بھگ مما لک میں دیکھے جاتے ہیں۔
Parliament
پارلیمنٹ ہاؤس میں لگنے والا تماشہ پوری دنیا میں دیکھا گیا کہ کس طرح عوامی نمائندوں نے ایک دوسرے پر کیچڑاُچھالا اور پارلیمان کے تقدس پامال کیا اور تو اور وزیر داخلہ تو سونے پر سہاگہ کرنے چلے تھے کہ جواب باقاعدہ پریس کانفرنس میں دیں گے لیکن میاں صاحب کی مداخلت سے یہ سلسلہ تھما اور اگر اس وقت حکومت کواپوزیشن سے مطلب نہ ہوتا تو کیا ہوتا خود ہی سوچئے ذرا اوریہ سارا معاملہ اس نا اہلی کی وجہ سے پیش آیا جب پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کرنے والے عوام اور اُن کے قائدین کیخلاف عوام کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کیلئے اس اجلاس کو براہ راست دکھانے کا فیصلہ کیا اور اس پر عملدرآمد کیا گیا۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ ملک پاکستان میں آئین اور قانون کی سخت شکیں غریبوں اور نرم شکیں امیروں کیلئے سمجھی جاتی ہیں اور اسی کلیہ پر عملدرآمد کیا جاتا ہے ایک اور بات جو سمجھ سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ووٹوں کے بغیر ہی سیاسی آقاؤں کی خوشامد کے زریعہ سے اقتدار میں آجاتے ہیں اور عوام پر اپنا رعب جمانا شروع کر دیتے ہیںاگر بات کی جائے میڈیا سے حکومتی سلوک کی تو صحافی بھی قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں کیونکہ حکومت اُن پولیس اہلکاروںجن میں کچھ بیروزگاری سے ڈرتے ہوئے اور کچھ گھر کا غصہ باہر نکالنے کے چکر میں حکومتی حکم کی تابعداری کرتے ہوئے صحافیوں پر تشدد کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
ہمارے وزراء بھی صرف مذمت کرکے احسان جتانا شروع کر دیتے ہیں اور آخر کار جس میڈیا ہاؤس کا نمائندہ زخمی ہوا بزنس دے کر معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے اب آپ خود ہی سوچیں کہ آخر کب تک ان تمام لوگوں کی خوشامد ہم کرتے رہیں گے اور جمہوریت کے نام پر اغواء ہوتے رہیں گے فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے۔