تحریر : طارق حسین بٹ ہر شخصیت کا اپنا انداز اور مقام ہوتا ہے اور دنیا میں وہ اپنے کارناموں سے پہچانا جاتا ہے۔اکثر یہی دیکھاگیا ہے کہ کسی نابغہ روزگار شخصیت کے چلے جانے کے بعد ا س کا نعم البدل نہیں ملتا ۔ کسی مخصوص شخصیت کا عزم اور اس کا ویژن کسی بھی دوسری شخصیت میں تلاش کرنا ممکن نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی تو ایسے ہو جا تا ہے کہ آنے والی شخصیت پہلی شخصیت کی ضد ہوتی ہے اور اس کے سارے پروگراموں کو رول بیک کر دیتی ہے۔اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں کسی خاص نتیجے تک پہنچنے میں چنداں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا۔پاکستان کی بدقسمتی کاآغا ز اس دن ہوگیا تھا جب قائدِ اعظم محمد علی جناح ١١ ستمبر ١٩٤٨ کو داغِ مفارقت دے گئے تھے۔قائدِ اعظم کے ذہن میں پاکستان کی ریاست کو جو تصور تھا اور وہ اسے جس طرح تشکیل دینا چاہتے تھے اسے کسی دوسری شخصیت میں تلاش نہیں کیا جا سکتا اور شائد یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک اپنی منزل کا تعین نہیں کر سکے۔ہم وقت کی بے رحم موجوں کے تھپیڑے سہہ رہے ہیں لیکن ساحلِ مراد سے ہمکنار نہیں ہو رہے کیونکہ ہمارے موجودہ قائدین کے سامنے کوئی ہدف نہیں ہے۔
ہمارے موجودہ قائدین نے لوٹ مار اور کرپشن کا جو بازار گرم کر رکھا ہے کیا پاکستان اسی لئے تشکیل دیا گیا تھا؟،در اصل کاروباری لوگوں سے ریاستی امور کو چلانے کی توقع رکھنا خود کو دھوکے دینے کے مترادف ہوتا ہے اور قحط الرجال کی کیفیت میں ہم ایسا ہی کئے جا رہے ہیں ۔در اصل ہمارے ہاں کوئی ایسی قد آور شخصیت نہیں ہے جو پاکستان کی راہنمائی اس منزل کی جانب کر سکے جس کا تعین قائدِ اعظم اور علامہ اقبال نے کر رکھا تھا ۔مفادات دامن سے چمٹ جائیں تو پھر بے لوث قیادت کا فر یضہ سر انجام دینا ممکن نہیں ہوتا۔ ذاتی اثاثہ جات بڑھا نے کی فکر دامن گیر ہو جائے تو پھر ملکی اثا ثہ جات کی حفاظت کی فکر ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے اور انسان دولت پرستی کی ایسی دوڑ میں شامل ہو جاتاہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔
ملک بے پناہ قر ضو ں میں ڈوبتا چلا جاتاہے لیکن قومی راہنمائوں کے ذاتی بینک بیلنس میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ ان کا محور اپنا بینک بیلنس بڑھا نا ہو تا ہے ۔اگران قائدین سے یہ پوچھا جائے کہ جناب اقتدار میں آنے سے پہلے اور اقتدار میں آنے کے بعد اپنی دولت کا حساب دیجئیے تو وہ اپنی ایمانداری کی قسمیں کھانا شروع کر دیں گئے اور اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کیلئے عوام سے مطالبہ کریں گئے کہ وہ ان کی کرپشن کے ثبوت عدالت سے ثا بت کروائیں۔اب حاکمِ وقت کی کرپشن کو ن ثابت کر سکتا ہے کیونکہ ثبوت تو سارے حکومت نے ہی پیش کرنے ہو تے ہیں لہذا نہ مقدمہ قائم ہوتا ہے اور نہ ہی کسی عدالت میں ثا بت ہوتا ہے لہذا پاک دامنی کا ڈھول خوب پیٹا جاتا ہے۔
Democracy
ایک جماعت آتی ہے لوٹ مار کر کے چلی جاتی ہے پھر دوسری جماعت آ دھمکتی ہے اور اقتدار سے رخصت ہونے والی جماعت کا فا رمولا دہراتی ہے ۔اس لوٹ مار میں دونوں اقتدار پرست جماعتیں ایک دوسرے کا احتساب نہیں کرتیں کیونکہن کے بقول اس سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جاتاہے جسے وہ کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کر سکتیں ا لہذا جمہوریت کو بچانے کی خاطر عوام کو حکمرانوں کی لوٹ ماربرداشت کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔حکمران موجیں مارتے رہتے ہیں اور عوام ضروریاتِ زندگی کو ترستے رہتے ہیں کہ ہمارے ہاں یہی جمہو ری کلچر کا تحفہ ہے اورحکمران اس تحفے کوکسی بھی قیمت پر اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دینا چاہتے۔وہ جمہوریت کا راگ اتنی اونچی سروں میں گاتے ہیں کہ عوام کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا ۔وہ اپنی خوشیوں کی قربانی دے کر جمہوری پودے کی آبیاری کرتے ہیں لیکن حکمران انھیں دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے جس کی وجہ سے عوام کا جمہوریت سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔در اصل پاکستانی عوام ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں حکمران ٹولے کو کو جوابدہ بنایا جا سکے اور ان سکا احتساب کیا جا سکے لیکن بظاہر ایسا ہوتا ہوادکھائی نہیں دے رہا۔
پاکستانی سیاست میں پاک فوج ہمیشہ سے بڑی اہمیت کی حامل رہی ہے ، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان سے شروع ہونے والی فوجی مداخلت پہلے دن کی طرح جاری ہے لیکن اگر ہم سب سپہ سالاروں کے اقدامات کا جائزہ لیں تو ان میں راحیل شریف بالکل الگ نظر آتے ہیں۔ ان کا عزم اور ان کا ویژن بالکل مختلف ہے۔وہ کرپشن کا خا تمہ اور دھشت گردی کا قلع قمع چاہتے ہیں۔ضربِ عضب نے جس طرح دھشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہ کسی سے ڈھکی چپھی نہیں ہے ۔ کراچی جیسے شہر کو امن کا گہوارہ بنانا ایک نا ممکن ہدف تھا جسے انھوں نے اپنے عزمِ مصمم سے سچ ثابت کر دکھایا ہے۔
ایک پیشہ ور فوجی کی حیثیت سے حکمرانوں کو چیلنج کرنا اور ان کے ہاتھ کو روکنا ناممکن لگتا تھا لیکن سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ آج دھشت گرد،بھتہ خور اور ٹارگٹ کلر اپنی جان بچا تے پھر رہے ہیں اور کچھ تو خو ف کے مارے ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔اپنے آپ کو بچانے کیلئے ان کے پاس یہی ایک آپشن بچا تھا کہ وہ ملک سے فرار ہو جائیں وگرنہ ان کی گردن میں رسہ پڑ جانا تھا ۔پوی قوم جس طرح راحیل شریف کے ساتھ کھڑی ہے وہ بھی مثالی ہے ۔قوم لوٹ مار کے کلچر سے تھک چکی ہے،وہ نیا نظامِ حکومت چاہتی ہے ،وہ عدل و انصاف کا بول بالا دیکھنا چاہتی ہے،وہ مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہتی ہے ،وہ لٹیروں کوسرِ دار دیکھنا چاہتی ہے لیکن سیاسی قیادت کے ہاتھوں ا یسا ہونا ممکن نظر نہیں آ رہا کیونکہ ان کے پالے ہوئے گماشتوں کے ہاتھوں سے ہی تو یہ سارے ناسور معاشرے میں پنپ رہے ہیں۔
PPP
نائن زیرو ہو یا پھر پی پی پی کی حکومت کہ وزرا اور اہم عہدیدار ہوں ان کی کرپشن کی کہانیاں روزانہ ٹیلویژن سکرین کی زینت بنتی ہیں جس سے عوام مبہوت ہو رہے ہیں۔کچھ کرپٹ عناصر تو خوف کے مارے کانپ رہے اور کچھ زیرِ زمین چلے گئے ہیں کہ شائد ان کی جان بچ جائے لیکن لگتا ہے کہ ان اکا انجام بالکل قریب ہے کیونکہ کرپشن اور پاکستان ا ب ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔ایم کیو ایم اور پی پی پی کے ترجمان کرپشن کی ان داستانوں کو میڈیا ٹرائل سے تشبیہہ دے کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عوام کی اکثریت ان کی اس توجیہہ کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہے کیونکہ حکمرانوں اور ان کے حا شیہ برداروں کا اندازِ زیست اس بات کی گواہی دینے کیلئے کافی ہوتا ہے کہ انھوں نے کس پیمانے کی لوٹ مار کی ہوئی ہے ۔ابھی تو کل کی بات ہے کہ ملک کی نامور ماڈل ایان علی پانچ لاکھ ڈالروں کے ساتھ اسلام آباد ائر پورٹ پر دن دھاڑے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ۔اس کے پاس جو پانچ لاکھ ڈالر پکڑے گئے تھے وہ کسی اہم قائد کی ایما پر یہ ڈالر بیرونِ ملک سمگل کر رہی تھی۔ اور ایسا اس نے پہلی بار نہیں کیا تھا بلکہ ایسا اس نے (٨١) مرتبہ پہلے بھی کیا تھا۔
اس دفعہ وہ بدقسمتی سے ائر پورٹ پر پکڑی گئی تھی تو سب کچھ طشت از بام ہو گیا۔پعوام کو علم ہے کہ ایان علی کی اپنی اتنی حیثیت نہیں کہ وہ اتنی بڑی رقم کسی دوسرے ملک میں سمگل کر نے کا خطرہ مول لیتی وہ تو اپنے آقائوں کے اشاروں پر ایسا کر رہی تھی۔عوام کی اکثریت ایان علی کی وساطت سے ان مکروہ سیاست دانوں کے چہر وں کو بے نقاب دیکھنا چا ہتی ہے جو عوامی حاکمیت کی قسمیں کھا کھا کر نہیں تھکتے اور انھیں باور کرواتے رہتے ہیں کہ وہ پاکستانی عوام کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں حالانکہ سب کو علم ہے کہ ان کی ساری تگ و دو زاتی اقتدار کے علاوہ ہ کچھ نہیں ہوتی۔مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ایان علی کی گرفتاری بھی عوامی امنگوں کو حقیقت کا جامہ پہنانے سے محروم رہی ہے کیونکہ حکمرانوں نے ایان علی کے خلاف مقدمہ ہی دائر نہیں ہونے دیا
وہ افسر جس نے ایان علی کو ائر پورٹ سے گرفتار کیا تھا اس کی زندگی کا چراغ ہی گل کر دیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔یہی وجہ ہے کہ عدلیہ کے پاس ایان علی کی رہائی کے احکامات جاری کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایان علی کے پیچھے کون تھا؟کس نے اسے بچایا ہے؟ وہ کس کے ڈالر لے کر جا رہی تھی اور ایسا اس نے کتنی بار کیاتھا؟ جیل میں ا س کے نخرے کون اٹھا رہا تھا ؟ کس کو اپنی رسوائی کا خوف تھا؟کون اپنی پارسائی کے تار تار ہو جانے سے خوفزدہ تھا؟کیا کسی کو جیل میں ا یان علی جیسی سہولیات میسر ہوتی ہیں؟کیا کوئی یوں بن ٹھن کے جیل سے نکل سکتا ہے؟یہ جیل تھی یا سسرال؟یہ کل کا قصہ تھا لیکن آج ڈاکٹر عاصم کی باری ہے لیکن اس کا انجام بھی ایان علی جیسا ہی ہوگا کہ یہی ہمارا سیاسی کلچر ہے۔