آخری سیاسی مباحثہ اور اس کے نتائج

Clinton and Trump

Clinton and Trump

تحریر: خرم انیق احمد خان
آج کل پوری دنیا کی نظریں امریکی صدارتی انتخابات پر جمی ہوئی ہیں۔کیونکہ اس سال امریکی صدر براک ابامہ کا صدارتی دور اپنے اختتام کو پہنچے گا اور اس کے بعد نئے صدر کا انتخاب کیا جائے گا نمائندے چننے کا ہر ملک کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔امریکہ میں بھی صدر کا انتخاب ان کے مخصوص طریقہ سے کیا جائے گا۔امریکہ میں موجود الیکٹورل کالج صدر کا انتخاب کرتا ہے۔الیکٹورل کالج میں امریکی ریاستوں کے وہ نمائندے شامل ہوتے ہیں جن کو ان کی مقامی عوام ان کو اپنے ووٹوں کی مدد سے منتخب کرتی ہے۔امریکہ میں 1960 سیایک روایت چلی آرہی ہے جس میں دو امیدواروں کے درمیان مباحثہ ہوتا جس کے ذریعے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کون ملک کو بہتر طریقے سے سنمبھال سکتا ہے۔

ہمیشہ کی طرح اس سال بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور سب سے مضبوط امیدواروں کے درمیان ایک سیاسی مباحسہ ہوا جس میں دونوں نے خوب حصہ لیا۔اس مرتبہ کے دو مضبوط امیدواروں میں ایسی شخصیات موجود ہیں جو کہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔پہلی امیدوار سابق صدر بل کلنٹن کی بیوی ہلیری کلنٹن ہیں اور ان کے مقابلے میں امریکہ کے ایک مشہور بزنس مین ڈانلڈ ٹرمپ ہیں۔ چونکہ دونوں ہی نامور شخصیات ہیں اس لئے دونوں سب سے ذیادہ مضبوط امیدوار ہیں۔ہلیری کلنٹن اس سے قبل بھی مختلف شعبوں میں سیاست میں نظر آتی رہی ہیں۔ 2009 سے 2013 تک ریاست کی سیکرٹری رہنے کا اعزاز بھی ہلیری کلنٹن کو حاصل ہے۔اس کے علاوہ 2001 سے 2009 تک امریکی شہر نیویارک کی سینٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دیتی رہی ہیں۔ دو ایسے اعزاز بھی ان کے نام ہیں جو کہ ان کے خاوند با کلنٹن کی وجہ سے آپ کو ملے۔ امریکی روایت ہے کہ صدر کی بیوی کو ملک کی پہلی خاتون کا رتبہ دیا جاتا ہے اور اسی طرح اس ریاست کی خاتون بھی جس سے صدر ملک کا تعلق ہو۔بل کلنٹن کا تعلق امریکی ریاست بنام ارکناس سے تھا۔ بظاہر اس اعزازیافتہ خاتون کا کام صرف اور صرف وائٹ ہاؤس کے تمام انتظامات دیکھنے تک ہی ممکن ہوتا ہے۔لیکن ہلیری کلنٹن نے اس دور میں بھی اپنے خاوند کا ساتھ دیتے ہوئے فلاحی کاموں میں حصہ لیا۔

Clinton

Clinton

1933 میں کلنٹن نے ایک ناکامیاب منصوبہ بنانے کے لئے بھرپور کوشش کی جس کا نام تھا “کلنٹن ہیلتھ کئیر پلان”۔ 1997 سے 1999 میں ریاست کے بچوں کی صحت کے لئے انشورنس کا کام شروع کیا۔اسی کے ساتھ ساتھ یتیم بچوں کو خاندان فراہم کرنے اور ان کی حفاظت کے لئے بھی اقدامات کئے گئے۔ 1995 میں “یواین” میں جب خواتین پر کانفرنس ہوئی تو ہلیری کلنٹن نے کہا کہ” انسانوں کے حقوق خواتین کے حقوق ہیں اور عورتوں کے حقوق انسانوں کے حقوق ہیں” اس سے واضح ہوتا ہے کا ان کے نزدیک انسانی حقوق تمام لوگوں کے لئے ایک جیسے ہونے چاہئے۔دوسری طرف نظر دوڑائی جائے تو ڈانلڈ ٹرمپ بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہاں سیاست میں ردعمل کچھ خاص نہیں رعہا لیکن اس کے خواہشمند ہمیشہ سے رہے ہیں۔ڈانلڈ ٹرمپ ایک بہت بٹے رئیل اسٹیٹ کو تخلیق دینے والے بزنس مین ڈانلڈ جے ٹرمپ اور ایک مشہور اداکارہ ایوانا ٹرمپ کے بیٹے ہیں۔ 1971 میں ڈانلڈ ٹرمپ کو کاروبار کا سربراہ مقرر کر دیا گیا جس کے بعد اس نے کاروبار کا نام “دی ٹرمپ آرگنائزیشن” رکھ دیا۔1985 سے 2016 تک ٹرمپ کے کاروبار کی کوئی بعہت بڑی کامیابی سامنے نہیں آئی۔

1985 کاروباذ کا سب سے کامیاب دور مانا جاتا ہے جس میں ٹرمپ نے اپنے والد کا کام ان کے نظریعے سے چلایا تھا۔اس کے علاوہ ٹرمپ امریکہ کی ایک نامور ٹی وی شخصیت بھی ہے۔2006 سے 2015 تک ٹرمپ اپنے والد ے ایک ٹی وی پروگرام میں مہمان۔مشیر اور جج کے طور پر آتا رہا ہے۔اس کے علاوہ ڈانلڈ ٹرمپ نے 2003ـ2004 میں ڈانلڈ ٹرمپ نے ایک ٹی وی پروگرام کی میزبانی کی جس کے پروڈیوسر بھی وہ خود تھے۔اس سے قبل ٹرمپ 2000 میں صدر بننے کی دوڑ میں امریکی سیاسی جماعت ریفورم پارٹی کی طرف سے سامنے آئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1987ـ1988 میں ڈانلڈ ٹرمپ پہلی مرتبہ اس دوڑ میں شامل ہوئے تھے لیکن اپنے ایک کسینو جس کا نام تاج محل کے نام سے ہے کی وجہ سے اس دوڑ سے باہر ہو گئے تھے۔کچھ دنوں پہلے ان دونوں کے درمیان ایک سیاسی مباحثہ طہ پایا جس میں بظاہر ہلیری کلنٹن کا پلڑہ بھاری نظر آیا۔ہلیری کلنٹن کی تقریر بہت ہی عمدہ کراری اور پالش تھی کہ جس کے معنی ہر شخص کو صاف واضح ہوتے ہیں۔

Trump

Trump

دوسری طرف ڈانلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر تو خوب جوشیلے انداز میں کی لیکن ساری تقریر تھی بیمعنی۔ہلیری کلنٹن نے بہت ہی ذبردست سوال اٹھاتے ہوئے اپنی تقریر کی جس میں ڈانلڈ ٹرمپ پر مختلف سوالات کشے جس میں ٹرمپ کا ٹیکس کی ادائیگی نہ کرنا اور کاروباری معاملات میں انصافانہ فیصلے نہ کرنے جیسے سوال شامل تھے۔ہلیری نے ہر نقطہ پر نظر رکھی لیکن ٹرمپ کے لئے بہت کم مواقع چھوڑے۔اس کے مقابلے میں ٹرمپ خوب غصے اور جوش میں بھی آیا۔لیکن کلنٹن نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام صورتحال کو مسکراتے ہوئے اپنے قابو میں رکھا۔ٹرمپ اس قدرجوش میں آگئے تھے کہ تقریر کا مشیر لیسٹر ہولٹ ٹرمپ کو ڈانٹنے پر مجبور ہو گیا۔ڈانلڈ ٹرمپ نے بہت ہی نپیتلے الفاظ میں کہا “سیکریٹری کلنٹن یہ ٹھیک ہے؟ ہاں؟ صحیح۔میں آپ کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں یہ میرے لئے بہت ضروری ہے۔

اس پر ہلیری کلنٹن نے ٹرمپ کے کاروباری کام کا ذکر کیا کہ اس کی وجہ سے عوام کو کیا نقصان ہوا ہے اس پر ٹرمپ نے بغیر سوچے سمجھے جواب دے کر اپنی جگہ خود۔کمزور کری اور اپنا ذاتی مفاد نا چاہتے ہوئے بھی واضح کذ دیا۔لہذا اس پوری تقریر میں ہلیری کلنٹن کو فتح نصیب ہوئی۔کسی بھی ملک کا سربراہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر مذہب کے لوگ کے خلاف اپنے نظریات ایک جیسے رکھے اور سب کے حق میں بہتر فیصلہ اور مساوی فیصلہ کرے۔اس لحاظ سے ڈانلڈ ٹرمپ اس عہدے کے لئے نااہل ہے۔چونکہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کا امریکہ میں داخلہ ختم کیا جائے جن کا تعلق دہشتگردی سے ہے۔اگر تمام صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو ابھی تک ہلیری کلنٹن کو صدر منتخب ہونا چاہئے کیونکہ ڈانلڈ ٹرمپ بہت زیادہ انتہا پسند ہے جو کہ امریکہ کے مستقبل کے لئے بہترثابت نہیں ہوگا۔بشکریہ پاورپوائنٹ ڈاٹ کوم ڈاٹ پی کے۔

تحریر: خرم انیق احمد خان