تحریر : واٹسن سلیم گل کسی بھی جمہوری نظام میں ریاست کے چار ستونوں کا بہت زکر ہوتا ہے۔ اور یہ تاثر عام ہے کہ جمہوری نظام کی عمارت پارلیمان (مقننہ)، عدلیہ، حکومت (انتظامیہ) اور میڈیا جیسے چار ستونوں پر کھڑی ہے۔ ساری دنیا میں جمہوری نظام کا یہ ہی نظریہ ہے۔ مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں سیاسی حالات کے تناظر میں اگر آپ جمہوری نظام پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارا نظام چار کے بجائے پانچ ستونوں پر کھڑا ہے۔ بلکہ میں اسے کسی ٹرک کے پانچ پہیوں پر کہونگا۔ ویسے تو گاڑی میں چار پہیئے ہوتے ہیں۔
ہماری جمہوری نظام کی گاڑی کے آگے کہ دو پہئے پارلیمان اور حکومت کے ہیں گاڑی کے پیچے کے پہئیے عدلیہ اور میڈیا کے ہیں اور اسٹیرئنگ کا ایک ویل ہمارے سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ہمارے یہ سیاستدان جب چاہتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں ہماری جمہوریت کی گاڑی کو گھما لیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ سیاستدان انا ڑی ڈرایئور کی طرح گاڑی کو کچے اور ناہموار رستوں میں پھنسا لیتے ہیں۔ اور حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ جمہوریت کی یہ گاڑی کچھ عرصے کے لئے رُک جاتی ہے اور کسی نئے مکینک کا اتظار ہوتا ہے۔
آج کل بھی ہمارے سیاستدان ڈرایویئنگ سیٹ پر بیٹھ کر کچھ ایسا ہی تماشہ کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے جو جملے پی ٹی آئ کے لئے کہے تھے کہ ” اوے کوئ شرم ہوتی ہے کوئ حیا ہوتی ہے ” وہ مجموعی طور پر ہمارے تقریبا سارے ہی سیاستدانوں پر فٹ آتے ہیں۔
Asif Ali Zardari
ہمارے سیاستدان اپنے قول اور فعل میں زبردست تضاد رکھتے ہیں جس تضاد کو ہم حرف عام میں منافقت کہتے ہیں۔ یہ اپنے ہی قول پر نہایت ڈھٹائ کے ساتھ یو ٹرن لیتے ہیں اور شرمندہ بھی نہی ہوتے ۔ ماضی کو چھوڑ کر ہم اگر 1988 کے بعد کے سیاسی پس منظر کا جائزہ لیں تو ہمیں ان سیاستدانوں کے بیانات میں اخلاقی پستیوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ ہر ایک سیاسی لیڈر دوسری پارٹی کے لیڑر پر وہ الزامات لگاتا ہے جن الزامات کا وہ خود مرتکب ہوتا ہے۔
نواز شریف اور شہباز شریف جنرل ضیاء الحق کے مشن کو آگے لیکر چلنے کا دعوٰی کرتے رہے ہیں اور آج وہ دوسروں کو آمروں کی پیداوار کے طعنے دیتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے یہ دونوں آصف زرداری کی تمام دولت واپس لانے اور اسے سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کرتے تھے مگر اب فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ زرداری صاحب اینٹ سے اینٹ بجانے کا دعوٰی کرتے ہیں اور پھر اپنے بیان سے یوٹرن لیتے ہیں۔ زرداری اور پیپلز پارٹی ق لیگ کو قاتل لیگ قرار دیتی ہے مگر بعد میں اسی ق لیگ کی گود میں ڈپٹی پرائم منسٹر کی سیٹ ڈال دیتی ہے۔ یہ ہی پارٹی اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں مشرف کے خلاف خاموش رہتی ہیں مگر اب بھڑکیں مار رہے ہیں۔
عمران خان تو بادشاہ آدمی ہیں۔ بلکہ مسٹر یو ٹرن ہیں۔ اپنے دھرنے میں کئے جانے والے درجن بھر دعواؤں میں سے کسی ایک پر بھی کھڑے نظر نہی آئے۔ قوم کو یوٹیلٹی بلز ادا نہ کرنے پر اکسانے والے عمران خان اپنے بجلی اور گیس کے بل باقئدہ جمح کرواتے رہے۔ زرداری کو چور کہنے والے عمران خان کی نظریں آج اسی زرداری کی جانب دیکھ رہی ہیں ۔ اور ان کی کوشش ہے کہ رائے ونڈ کے سامنے پیپلز پارٹی بھی ان کے ساتھ احتجاج کرتی نظر آیے۔
عمران خان آج آزادی اظہار رائے کے نعرے لگا رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ پی ٹی وی سمیت تمام میڈیا میں اظہار کی آزادی ان کا حق ہے۔ مگر دوسری جانب لاکھوں ووٹ لیکر جیتنے والی کراچی کی جماعت متحدہ کے قائد کی زبان بندی کا کریڈٹ بھی لیتے ہیں ۔ یہ ہی عمران خان جو متحدہ کے انیس قائم خانی ، وسیم آفتاب اور مصطفی کمال پر کراچی میں بھتہ خوری، ٹارگٹ کیلینگ اور دہشتگردی جیسے سنگین الزامات لگاتے رہے ہیں آج فرما رہے ہیں کہ ان کی پارٹی (پاک سر زمین) سے الحاق ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ تو وہی بات ہوئ کہ کالعدم تنظیموں نے اپنی تنظیموں کے نام بدل کر اپنا کام جاری رکھا ہے۔
Imran Khan
یعنی پرابلم صرف کسی جماعت کے نام میں ہے افراد کے عمال چاہے جیسے بھی ہوں۔ یہ ہی حال مزہبی پارٹئیوں کا ہے۔ جماعت اسلامی کی پاکستان کی پارلیمنٹ میں نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہے مگر یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ہونے والے تمام فیصلے ان سے مشاورت کے بعد ہوں۔ یہ ہی مزہبی جماعتیں بشمول جماعت اسلامی مشرف دور میں متحدہ مجلس عمل کے نام سے پارلیمنٹ میں مزے لوٹتے رہے آج مشرف پر تنقید کرتے نہی تھکتے۔ اسی طرح ن لیگ میں ایک بڑی تعداد جو یہ سوچتی ہے کہ ہم عوام شائد کم عقل ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ آج جس مشرف کو تم تنقید کا نشانہ بنا رہے ہو کل تم اسی مشرف کی تعریفوں کے پُل باندھتے تھے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو جب ضرورت ہوتی ہے تو نائن زیرو پر حاضری دی جاتی ہے اور ضرورت نہ ہونے کی صورت میں یہ ہی نائن زیرو “را” کا ہیڈ آفس بن جاتا ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ پارلیمنٹ پاکستان کا سب سے معتبر اور مضبوط ادارہ ہے اور اس کے نمایندوں کو اس ادارے کی عزت ، وقار اور بالادستی کو سب سے اوپر رکھنا چاہیے۔ اس پارلیمنٹ کی نمایندگی کرنے والوں کی بھی اخلاقی اقدار ہونی چاہئے ۔ ان کو بیانات سوچ سمجھ کر دینے چاہئے اور پھر اپنے بیانات پر قائم رہنا چاہئے۔
اس وقت جو سیاست کا گندہ کھیل پانامہ لیکس کے نام پر شروع کیا جا رہا ہے۔ وہ جمہوریت کی اس گاڑی کو اپنے ٹریک سے اتار دے گا۔ اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کو عقل کے ناخن لینے چاہئے۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ اس بار غیر جمہوری قوتیں نہ چاہتے ہوئے بھی نظام کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ اور اگر خدانخواستہ جمہوریت کو نقصان ہوا تو اس بار ہمیں اس نقصان کی بہت بڑی قیمت چُکانہ ہوگی۔ اس سے نہ صرف پاکستان ، چائنہ معاشی راہداری کے منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں بلکہ ضرب عصب کے آپریشن کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اور اگر یہ سب کچھ ہوا تو مورخ جو آج کی تاریخ لکھے گا اس میں ساری زمہ داری سیاسی قوعتوں کے کاندھوں پر ڈالی جائے گی۔