اسلام آباد (جیوڈیسک) ایف آئی اے نے پاکستانیوں کی بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق عبوری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس میں بتایا گیاہےکہ سیاسی شخصیات اور ان سے وابستہ 35 افراد کی دبئی میں جائیدادیں ہیں جب کہ 9 بے نامی دار افراد اور 150 امیر ترین افراد کی نشاندہی ہوئی جن کی جائیدادوں کی مالیت 30 ارب روپے ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں چیئرمین ایف بی آر عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے چیئرمین ایف بی آر سے گرے کمیونیکیشن سے متعلق سوال کیا اور چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ انڈین ڈی ٹی ایچ کی اسمگلنگ روکنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ممبر کسٹم آرہے ہیں وہ اس بارے میں بتائیں گے جب کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ پیش رفت ہوئی ہے کچھ مزید وقت چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایا کہ ایک ہزار ارب کی جائیدادوں کی نشاندہی ہوگئی، اب انہیں واپس لانا کس کی ذمہ داری ہے؟ ان میں سے 100 افرادکو عدالت میں حاضر کریں۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کون 20 لوگ ہیں جنہیں ہم طلب کرکے پوچھیں کہ یہ جائیدادیں کیسے بنائیں؟ ہمیں لندن، دبئی اور دوسرے ملکوں کے بارے میں معلومات چاہیے۔
اس موقع پر ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ 150 لوگوں نے مانا ہے کہ ہماری جائیدادیں ہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بیرون ملک جائیدادیں رکھنے والے افراد 894 ہیں، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل نے مکالمہ کیا کہ اگر قانون میں سقم ہے تو ترمیم کریں۔
ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو مزید بتایا کہ 374 لوگوں نے کہا کہ ہم نے جائیداد ظاہر کردیں، ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کو 150 لوگوں نے بیانات دیئے، 69 افراد کہتے ہیں انہوں نے ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کیا ہے، 82 افراد کہتے ہیں جائیدادیں ہماری ہیں ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے بشیر میمن سے استفسار کیا کہ ڈی جی صاحب آپ کب کارروائیاں کریں گے؟ دوران سماعت گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس ثاقب نثار نے گورنر اسٹیٹ بینک سے پوچھا کہ آپ بتائیں اس معاملے میں کیا کیا جاسکتا ہے، ہم مقدمہ نمٹا لیتے ہیں پھر حکومت دیکھ لے۔
چیف جسٹس نے اٹانی جنرل نے استفسار کیا کہ حکومت کس چیز کا انتظار کر رہی ہے، آپ کو بندوں کی نشاندہی کر کے دے دی، آپ دس نمایاں لوگوں کو یہاں لے آئیں، اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ قانون کے مطابق گرفتار نہیں کرسکتے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے عدالت کو بتایا کہ 150 لوگوں نے کہا کہ جائیداد ہماری ہیں ظاہر نہیں کی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ان 150 میں سے 10 کو بلا لیتے ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ برطانیہ نے صرف جائیدادوں کی تفصیلات دی ہیں، کسی بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات نہیں دیں۔
عدالت نے ایف آئی اے کو 20 لوگوں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر دی۔
دوران سماعت ایف آئی اے نے جائیدادوں سےمتعلق سپریم کورٹ میں عبوری رپورٹ جمع کرائی۔
رپورٹ کے مطابق سیاسی شخصیات اور ان سے وابستہ 35 افراد کی دبئی میں جائیدادیں ہیں، ایف آئی اے نے 3570 پاکستانیوں کے خلاف تحقیقات شروع کیں، ان افراد نے دبئی میں ایک ہزار 15 ارب روپے کی غیر قانونی جائیدادیں بنائیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ 9 بے نامی دار افراد کی نشاندہی بھی کی گئی، 150 امیر ترین افراد کی نشاندہی ہوئی جن کی جائیدادوں کی مالیت 30ارب روپے ہے، ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے 386 افراد کے خلاف تحقیقات روکی گئیں، دبئی میں 374 جائیدادیں رکھنے والوں نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم 2018 سے فائدہ اٹھایا۔
ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق 150 افراد نے تسیلم کیا انہوں نے ٹیکس گوشواروں میں جائیدادیں چھپائیں، 674 افراد نے ایف آئی اے میں بیان حلفی داخل کیا، 900 پاکستانی دبئی میں غیر قانونی جائیدادیں رکھتے ہیں، ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے 44 افراد نیب میں کیسز کا سامنا کررہے ہیں، 200 افراد نے بیان حلفی میں جائیدادیں ظاہرکیں مگر ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھایا، 2500 افراد رواں سال جون میں ایمنسٹی چاہتے تھے مگر ایف بی آر نے شرائط نہیں مانیں، حکام نے حکومت سے ایک اور ایمنسٹی اسکیم لانچ کرنے کی سفارش بھی کی۔