تحریر : آصف یٰسین لانگو ہم نے اکثر سُنا ہے کہ کچھ لوگ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں وہ اس لیے کہ وہ لوگ اپنی حیات میں کچھ نہ کچھ ایسے کارنامے کر جاتے ہیں اور وہ کام عرصہ بعید تک صدقہ جار یہ رہتے ہیں۔ہمارے زندہ معاشرے میں ان کا رناموں کوضرور یاد کیا جاتا ہے کہ فلاں کی فلاں کام بہت ہی اچھا ہے ، محفلوں میں ذکر اور یاد بن نمونہ و مثال بن کر رہ جاتا ہے۔ تو ایسے صورتحال میں وہ شخص ہمیشہ کے لئے زندہ لوگوں کی طرح معاشرے میں محسوس ہو ا کرتا ہے ۔ انسان کی عزت اور ذلت رب العالمین کے حکم کا محتاج ہے لیکن اُسی خالق کائنات اپنے عظیم الشان مقدس کتاب قران پاک میں انسان کو اپنا نائب قرار دیکر اپنے افعال و کردار کا ریموٹ کنٹرول اس کے ہاتھ میں تھما دیا ہے کہ ” تم جیسا چاہو، سوچ سکتے ہو اور عملی کردار بھی ادا کرسکتے ہو، اچھا انسان اور برا انسان بننے سے انسان کو اپنی نصیب کو ہر گز نہیں ذمہ دار ٹھہرانا چاہئے بلکہ اپنے آپ کو ذمہ دار تصور کرنا ہی درست دلیل ہے۔جتنے اچھے برے کام کیے جاتے ہیں وہ خدا وند تعالیٰ کی حکم سے تحریر بہ تحریر ہوتے ہیں و اعمال قابل یاد ہوتے ہیں۔
لہذا اچھا کرنے سے انسان بھی اچھا ہوتا ہے۔ اسی طرح کا ایک زندہ رہنے والا معزز ، قبائلی ،سیاسی و سماجی شخص جس کا نام میرنظام الدین بھٹو جو اپنی کارناموں کی وجہ سے اپنے علاقے میں شہید ہونے کے باوجود بھی ہر زندہ دل میں بستا ہے ۔آپ یکم جنوری 1962ء میںنصیر آباد، جیکب آباد اور شکار و دیگر اضلاع میں مقیم بھٹو قبیلے کے سیکڑوں خاندان کے رئیس : رئیس اللہ بخش بھٹو کے گھر میں پیدا ہوئے ۔آپ نے ابتدائی تعلیم ضلع نصیر آباد کے گورئمنٹ ہائی اسکول ڈیرہ مراد جمالی ، بلوچستان بورڈ سے میٹرک کی تعلیم حاصل کی ، بعداذا ں تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے گورئمنٹ ڈگری کالج شکار پور سندھ سے ایف ایس سی مکمل کرنے کے بعد شاہ عبدلطیف بھٹائی یونیورسٹی خیر پور سندھ سے بیچلر آف آرٹس اور پھر ماسٹر آف آرٹس کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد سیاسی و سماجی تنظیموں کے ساتھ خود کو منسلک کر کے عوامی خدمات کا فیصلہ کیا۔ پیشہ ورانہ زندگی آبائی زرعی زمینداری سے آپ کی معاشی حیات درمیانی طبقوں میں شامل تھا۔
PPP
آ پ نے اپنی سیاسی زندگی کا شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے آغاز کیا ،کئی باربینظیر بھٹو صاحبہ کے ساتھ سیاسی نشست بھی نصیب ہوئی۔ آپ بھٹو ویلفیئر ایسوسی ایشن بلوچستان کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔خدمت کی بے حدشوق و جذبہ نے قوم پرستی کی بنیاد پر اپنی سیاسی جماعت ” جاموٹ قومی محاذ پاکستان” بنیاد رکھی اور جاموٹ قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں شعور بیداری اور خدمت کا جزبہ پیدا کرنے کی بھر پور دعوت دی۔ سیاسی دوستوں و ہمدردروں کی اسرار اور دعوت پر اپنی جماعت ” جاموٹ قومی محاذ پاکستان”کو پاکستان مسلم لیگ ن میں ضم کرکے اپنی قومی سیاسی زندگی آغاز کیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر 2008ء کے جنرل الیکشن میں سابق صوبائی وزیر حکومت بلوچستان میر صادق خان عمرانی کے مقابلے میںصوبائی اسمبلی کے حصہ لیا۔ آپ کو میر صادق خان عمرانی موجودہ صدر پی پی پی بلوچستان کا ایک دلیر سیاسی حریف کا نام 2008ء کے الیکشن کے ملا۔
اس کے علاوہ مختلف سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر معاشرتی حقوق کے لئے آواز بلندکیا ، عوامی فلاح و بہبود کے لئے آپ پاکستان ہومن رائٹس بلوچستان کے صوبائی صدر کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ ہمدرد ڈو لپمنٹ ویلفیئر ایسو سی ایشن نصیر آباد ریجن کے تاحیات سرپرست بھی رہ چکے ہیں، آپ غریب عوام کے ذاتی مسائل حل کرنے میں خصوصاََ دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کی میل جول اکثر اوقات سیاسی کارکنان میں پایا جاتا تھا۔ انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کے ساتھ اپنا سیاسی و سماجی پیغام ، جلسے ،جلوس اور پروگرام منعقد کیا کرتے تھے جو کہ رائٹ کمپر ومائز کہلاتی ہے جو کہ سیاسی بلوغیت اور لیڈر شپ کی نشانی ہے۔
Benazir Income Support
آ پ کی طبیعت کے متعلق قریبی سیاسی و سماجی ساتھیوں کے مطابق ہمیشہ ، نماز کی ادائیگی کے ساتھ وقت کی پابندی بھی ہما وقت عمل میں رہتا تھا۔ زندگی کے بیشتر اوقات میں دوستوں و عوام کے ساتھ خو شگوار ، ملن سار اور بے انتہاء ہمدردانہ رویہ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ آپ واقعی میں ایک زبردست سیاسی رہنما ہونے کے ساتھ ایک اچھے رفیق انسان بھی تھے۔آپ نے ہمیشہ اپنے یونین کونسل کے حدود سمیت شہریوں کے بے شمار مسائل ، نادرا، انتظامیہ ، پولیس تھانہ کلچر ،سیلاب متاثرین امداد ، بیوہ خواتین کا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور بیت المال کی زکواة کی حصول میں بلا کسی غرض سے اُ ن کی مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس کی وجہ غریب طبقے میں آپ کی مقبولیت نے آپ کو ایک کامیاب سماجی رہنما کا لقب دیا۔ ضلعی انتظامیہ کی طرف بیشتر سماجی کردار کی ادائیگی پر اعزاز ی تمغوں سے ہمیشہ نوازا ہے۔ یہاں علامہ اقبال کی ایک شعر یاد آتا ہے۔
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ اسمان کے لئے جہاں ہے تیرے لئے، تو نہیں جہاں کیلئے
آ پ کی سیاسی حریف بیشتر اوقات آپ کے ساتھ گیو اینڈ ٹیک پرپوزل پیش کیا کرتے تھے مگر آپ کی گہری سیاسی سوچ نے ہمیشہ اُن کو مایوس کیا ، یہاں تک کہ سیاسی حریفوں نے آپ کو برداشت نہ کرتے ہوئے جان کے دشمن بنے پھرتے رہے آخر انھوں نے 26جون 2015 بر وز جمعة المبارک بمطابق 8رمضان المبارک کے روز نامعلوم افراد کی فائرنگ سے اپنی زندگی کو تمام کر دی۔شہر ڈیرہ مراد جمالی ضلع نصیر آباد ، جعفرآباد اور صحبت پور سمیت بلوچستان میں شہادت کی خبر نے ہر آ نکھ کو آنسو سے رولا دیا اور سناٹا طاری چھا گئی اورآپ کی وفات پر سیاسی مخالفین بھی اشک بار ہوئے کہ نصیر آباد ایک سماجی کارکن سے محرو م ہو گیا ۔ آ پ کی شہادت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ پاکستان مسلم لیگ ن بلوچستان کے صوبائی و مرکزی سیکریٹر یٹ کے دفاتر سے واقع کی سخت الفاظوں میں مذت کی گئی تھی اور حکومت بلوچستان پولیس کوہدایت جاری کی تھی کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے فوری کاروائی کی جائے۔ آپ کی خون رائیگا نہیں جائیگا۔کسی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ اچھے لوگوں کی زندگی مختصر لیکن موت کے بعد بھی ہمیشہ زندہ رہنے گا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔