تحریر : پروفیسر رفعت مظہر جوں جوں پاناما پیپرز کیس سپریم کورٹ میں آگے بڑھ رہا ہے، سیاسی درجہ حرارت اپنے عروج پر پہنچتا جا رہا ہے۔ جونہی سماعت ختم ہوتی ہے، عدالت کے باہر عدالت لگ جاتی ہے اور وہاں جو زبان استعمال کی جاتی ہے، اُسے غیرپارلیمانی کہنا بھی شاید درست نہ ہو کیونکہ بازاری زبان اور ذومعنی جملے دھڑا دَھڑ بولے جا رہے ہوتے ہیں ۔ ہم نے تو سنا تھا کہ سیاست ذاتیات سے بالاتَر ہوتی ہے اور دشمنیاں ذاتی نہیں ، سیاسی ہوتی ہیں ۔ اِسی لیے ذاتیات پر اترنا انتہائی معیوب تصور کیا جاتا ہے لیکن موجودہ دَور کی سیاست میں ہر طرف ذاتیات پر ہی حملے نظر آتے ہیں اور اِن حملوں سے مبّرا کوئی جماعت بھی نہیں ۔ ”شرمناک” اب پارلیمانی لفظ بَن چکا ۔ ایک دوسرے کو چور ، ڈاکو ، خائن اور بَددیانت کہنا سیاسی نقطۂ عروج قرار پا چکا اور دوسروں کے گھروں میں جھانکنا سیاسی عبادت ۔ تَن اُجلے مَن میلے لوگوں کی باتیں سُن سُن کر نسلِ نَو بھی نہ صرف اُسی راہ پہ چل نکلی ہے بلکہ ہماری شناخت بھی بنتی جا رہی ہے۔ تلخیوں میں گھُلے الفاظ کسی بھی سانحے کا پیش خیمہ بَن سکتے ہیں۔
یہ سانحہ نہیں تو اور کیا ہے کہ جمعرات 26 جنوری کو پارلیمنٹ میں قومی رہنماء نہ صرف ایک دوسرے سے گتھم گُتھا ہو گئے بلکہ لاتوں ، مُکّوں اور ننگی گالیوں کا آزادانہ استعمال بھی ہوا ۔ قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے 26 جنوری کو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ وہ غیر متنازعہ سپیکر نہیں رہے تو وہ مستعفی ہونے کو تیار ہیں ۔اُسی دِن خیبرپختونخوا اسمبلی میں یہ ڈرامہ دہرایا گیا اور سپیکر نے 20 فروری تک اجلاس ملتوی کر دیا ۔ الیکٹرانک میڈیا پر بھی نوازلیگ اور تحریکِ انصاف کے رہنماء آگ اُگلتے ہی نظر آئے ۔ اِس ماحول میں جب تلخی دِن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے ، ہم عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں اور پاناما کو بارود بنا کر کچھ لوگ قومی یکجہتی کو بھسم کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں ۔ لال حویلی والا اِس سے پہلے بھی کئی بار جلاؤ ، گھیراؤ ، مارو ، مَرجاؤ کی دھمکیاں دیتا رہا ہے اور اب بھی اُس کی زبان سے یہی الفاظ نکلتے ہیں ۔ وہ لاشوں کی سیاست کرنا چاہتا ہے اور اُس نے تو کپتان کو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر کہیں اور سے کوئی لاش نہ ملے تو اُسے قتل کرکے اُس کی لاش اُٹھا کر احتجاج کیا جائے ۔ ایسی صورت میں قومی یکجہتی کا تصور کرنا بھی احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہے ۔ اگر یہی صورتِ حال برقرار رہی تو پھر ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا ۔ ایسے میں چین بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اُس نے پاکستان میں 55 اَرب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرکے کہیں حماقت تو نہیں کی ۔ پھر نریندر مودی جیسے پاکستان اور اسلام دشمن شخص کو اِس افراتفری کے ماحول میں اپنی خباثتوں کو بروئے کار لانے کا بھرپور موقع بھی مل جائے گا ۔ اِسی لیے وفاقی وزیر احسن اقبال نے متنبہ کیا ہے کہ بحران پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو سرمایہ کاری کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن شاید ہمارے کچھ مہربا ن ایسا ہی چاہتے ہیں۔
پاناما ہنگامہ کو اب عام انتخابات کی طرف موڑا جا رہا ہے ۔اپوزیشن کا مطمح نظر یہ ہے کہ عدالتی فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو پاناما ایشو کو اتنا اچھالا جائے کہ وزیرِاعظم میاں نواز شریف کی اخلاقی ساکھ سوالیہ نشان بن جائے ۔ اِسی لیے اب نوازلیگ پر صرف تحریکِ انصاف ہی نہیں بلکہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی بھی تنقید کے تیر برسا رہی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ جلسے جلوس اور ریلیوں کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے جس میں ہدف صرف نواز لیگ ہی ہے۔
Nawaz Sharif
پنجاب کے ہر ضمنی انتخاب میں اصل مقابلہ نواز لیگ اور تحریکِ انصاف کے مابین ہی رہا اور پیپلزپارٹی کے امیدوار کو بہت کم ووٹ ملے ، اِس لیے یہی تصور کیا جا رہا ہے کہ نوازلیگ کے بعد دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی نہیں ، تحریکِ انصاف ہے جو پیپلز پارٹی کو کسی صورت بھی منظور نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول زرداری بار بار پنجاب میں آکر کبھی ریلیوں کا اہتمام کرتا ہے تو کبھی کارکنان سے خطاب ۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے کہ مسلم لیگ نون کی ”گرِپ” مضبوط ہے اور اُس کے عام انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے کے امکانات معدوم ۔ اگر نواز لیگ نے اپنے منشور میں کیے گئے وعدوں کا قابلِ ذکر حصّہ بھی پورا کر دیا تو پھر کم از کم پنجاب کی حد تک تو کوئی اُسے شکست سے دوچار نہیں کر سکتا۔ اِس لیے پیپلزپارٹی کی یہ خواہش ہے کہ اُسے پنجاب سے بھی کچھ حصّہ مل جائے اور یہ حصّہ اُسے تحریکِ انصاف ہی سے مل سکتا ہے کیونکہ تحریکِ انصاف کے حلقوں میں بَددلی اور افراتفری کی لہریں صاف دکھائی دیتی ہیں ۔ اگر پیپلز پارٹی اپنے اِس مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے تو دیہی سندھ میں بہرحال اُس کے قدم اب بھی مضبوطی سے جمے ہیں ۔ ایسی صورت میں انتخابات 2018ء میں وہ بھرپور اپوزیشن بَن کر سامنے آ سکتی ہے ، ایسی اپوزیشن جو حکمران جماعت کو ناکوں چَنے چبوا دے۔
بلوچستان میں تحریکِ انصاف کا پہلے کوئی حصّہ تھا ، نہ اب ہے ۔ شاید تحریکِ انصاف کو اِس کا ادراک بھی ہے ، اِسی لیے وہ بلوچستان سے صَرفِ نظر کیے بیٹھی ہے البتہ خیبرپختونخوا میں اُس کی اپنی حکومت ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید عام انتخابات میں یہ حکومت بھی اُس سے چھِن جائے گی۔ وجہ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف نے خیبرپختونخوا میں کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سَرانجام نہیں دیا ۔ کپتان نے سارا وقت جلسے، جلوسوں اور دھرنوں میں صَرف کر دیا اور خیبرپختونخوا کی طرف مطلق توجہ نہیں دی ۔ جس صوبے کا وزیرِاعلیٰ اپنے صوبے کو بے یارومددگار چھوڑ کر دھرنوں اور جلوسوں میں شریک ہو کر سارا وقت ضائع کر دے ، وہاں ترقی کیا خاک ہونی ہے ۔ کے پی کے میں جو ایک دو کاموں کا بڑی شدّومَد سے اعلان کیا گیا ، وہ محض جَگ ہنسائی کا باعث بنے ۔ کہا گیا صوبے میں ایک ارب درخت لگائے جائیں گے۔
کپتان نے بڑے اہتمام کے ساتھ شجرکاری مہم کا آغاز بھی کر دیا لیکن پھر کسی نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تک نہیں ۔ اِسی طرح چوہے مار مہم کا آغاز کیا گیا اور ہر چوہے کے سَر کی ایک مخصوص قیمت بھی مقرر کی گئی ۔ ہمارے پختون بھائی اِس مہم پر ایسے نکلے کہ حکومت بوکھلا گئی ۔ پختون بھائی بوریاں بھَر بھر کر چوہے لانے لگے جس پر صوبے کی حکومت نے سوچا کہ ایسے تو سارا خزانہ چوہوں پر خالی ہو جائے گا ۔ اِس لیے اُس نے توبہ کر لی اور پھر کسی چوہے کی طرف دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کی ۔ اب چوہے سینہ تانے پورے صوبے میں دندناتے پھر رہے ہیں اور حکومت ”ٹُک ٹُک دیدم ، دَم نہ کشیدم” کی عملی تصویر۔ اگر کپتان سڑکوں پر نکلنے کی بجائے اپنی ساری توجہ خیبرپختونخوا پر صَرف کرکے اُسے ایک مثالی صوبے میں ڈھال دیتے تو اُنہیں آمدہ انتخابات میں ہر جگہ خوش آمدید کہا جاتا ۔ اگر کوئی معجزہ رونما نہ ہوا تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آمدہ انتخابات میں یہ صوبہ بھی کپتان کے ہاتھ سے سِرک جائے گا۔