سوئٹرزلینڈ (اصل میڈیا ڈیسک) سوئس وزارت خارجہ نے بتایا ہے کہ طالبان کا ایک وفد سوئس حکام اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ انسانی ہمدردی کے امور اور انسانی حقوق پر بات چیت کے لیے جنیوا کا دورہ کر رہا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ “وفد کے ارکان ضرورت مند آبادی تک انسانی امداد کی رسائی اور انسانی حقوق کے تحفظ اور احترام پر بات چیت کریں گے۔”
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سوئٹزرلینڈ میں طالبان تحریک کی موجودگی ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرنا نہیں جس نے گذشتہ سال اگست میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔
طالبان کے نمائندوں نے گذشتہ جنوری میں اوسلو میں مغربی سفارت کاروں کے ساتھ بات چیت کی تھی جس میں افغانستان میں انسانی بحران اور انسانی حقوق پر توجہ مرکوز کی گئی۔ طالبان اور مغربی سفارت کاروں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں افغانستان میں خواتین پر طالبان کی پابندیوں پر بات چیت کی گئی تھی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ طالبان نے ان یقین دہانیوں کے باوجود اپنے وعدے پورے نہیں کر پائے ہیں۔ طالبان نے گذشتہ مہینوں وعدے کیے تھے کہ وہ سابقہ حکومت کے دور میں سیکیورٹی اور دوسرے اداروں میں کام کر نے والوں کو عام معافی دیں گے مگر ایسا نہیں ہوسکا۔
گذشتہ جنوری میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ عسکریت پسند طالبان تحریک اور اس کے اتحادیوں نے افغان حکومت کے 100 سے زائد سابق ارکان، سیکیورٹی اہلکاروں اور بین الاقوامی افواج کے ساتھ کام کرنے والے افراد کو ہلاک کیا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان کو ایک انسانی تباہی کا سامنا ہے جو طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کی وجہ سے بڑھ گئی ہے۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد مغربی ممالک نے بین الاقوامی امداد منجمد کر دی ہے اور ابھی تک کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
غربت کے علاوہ ملک کے کئی خطوں میں شہری آزادیوں میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔تحریک طالبان کی طرف سے نافذ کیے گئے نئے حکمنامے کے تحت متعدد خلاف ورزیوں کا سامنا ہے۔ ان پابندیوں پر اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ کو سلامتی کونسل سے افغانستان میں خاص طور پر خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کا نوٹس لینے کی درخواست دینے پر مجبور ہونا پڑا۔