تحریر : محمد اشفاق راجہ پنجاب میں جاری انسداد دہشت گردی آپریشن کے حوالے سے جاری سرگوشیوں اور تبصروں کا رخ سیدھا کرنے کے لئے بالآخر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس یا ملاقات ہو ہی گئی جس میں کھلے دِل سے مذاکرات کر کے غلط فہمیوں کے ازالے کی پوری کوشش کی گئی۔ اگرچہ اس ملاقات کا سرکاری طور پر کوئی اعلان نہیں کیا گیا، لیکن خبر موجود ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس ملاقات سے مراد ان غلط فہمیوں کو دور کرنا اور ان تحفظات کے حوالے سے وضاحت تھی جو آپریشن کے بارے میں پائے جا رہے تھے کہا جا رہا تھا کہ پنجاب حکومت کو یکایک شروع ہونے والے اس آپریشن پر اعتراض تھا کہ سانحہ لاہور کے بعد نہ صرف فوج نے فوری اور تیز تر ردعمل ظاہر کیا، بلکہ فوجی ترجمان کی طرف سے سپہ سالار کے عزم کا بھی ذکر کیا گیا۔
وزیراعظم محمد نواز شریف نے تو دورہ امریکہ اور برطانیہ منسوخ کر کے قوم سے خطاب بھی کیا۔ یوں چیف آف آرمی سٹاف کے بعد تقریر میں بیان کئے گئے نکات سے اتفاق رائے مترشح تھا اور یہی تاثر بنا کہ فریقین ایک صفحہ پر ہیں، اس کے باوجود فضا میں سرگوشیاں جاری تھیں جن کو تقویت صوبائی وزیر قانون رانا ثنائہ اللہ کے بیانات سے ملتی تھی جو دن میں کئی بار بات کرتے اور یہ تاثر دیتے کہ آپریشن فوج کی طرف سے نہیں مشترکہ کارروائی ہے، ایسے منظر کی وجہ سے غلط فہمیوں کا اظہار ہوتا تھا۔
چنانچہ وزیراعظم محمد نواز شریف نے جب دھرنے کے حوالے سے اور اس سے پہلے جماعتی مشاورتی اجلاس منعقد کیا تو اس پہلو پر بھی غور کیا گیا، چنانچہ طے کر لیا گیا تھا کہ یہ غلط فہمی ضرور دور کی جائے تاہم دھرنے نے اس میں ذرا تاخیر کر دی۔خبروں کے مطابق مخالفین اور خصوصاً شیخ رشید جیسے حضرات کی گفتگو اور اطلاعات کی روشنی میں مناسب جانا گیا کہ پھر سے حکمرانوں اور جی ایچ کیو کے درمیان فضا سابقہ تعاون والی بنائی جائے۔
Shahbaz Sharif and Ishaq Dar
اس مقصد کے لئے ایک ہی دن میں وزیر خزانہ اسحق ڈار اور وزیر داخلہ معہ وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف الگ الگ ملاقات ہوئی، وزیر خزانہ کے ساتھ وزارت کے بعض افسر بھی تھے ، چنانچہ اس میں نئے مالی سال کے بجٹ میں فوجی ضروریات کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔ خبر یہ ہے کہ اِسی ملاقات میں عسکری ضروریات کے علاوہ عسکری مزاج پر بھی بات ہوئی اور رویہ معتدل پایا گیا، جس کے بعد گرین سگنل ہوا اور وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر داخلہ کو ساتھ لے کر ملاقات کے لئے پہنچ گئے اس ملاقات کی کوئی اندرونی کہانی نہیں۔ بہرحال یہ تاثر دیا اور بتایا گیا ہے کہ تبادلہ خیال سے بہتر راستہ نکلا اور پنجاب کا آپریشن باہمی تعاون سے جاری رہے گا۔ یوں اسے کامیاب ملاقات ہی کہا جا سکتا ہے۔
مْلک میں اس وقت امن و امان کے حالات اور سیاسی رسہ کشی ہے، اس کے لئے سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی بہت ضروری ہے اس کے لئے بعض اوقات ایک دوسرے کی سخت بات کو بھی برداشت کیا جاتا ہے۔ حکمران جماعت کے سربراہ وزیراعظم محمد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کے درمیان مکمل اتفاق ہے کہ تعلقات خوشگوار رہنا چاہئیں تاہم کبھی کبھار بڑے صاحب کا خون جوش مارتا ہے تو پھر یہی جوڑی کام آتی ہے جو اب ملی اور معاملہ طے ہوا، یہ اچھا فیصلہ ہے حالات اختلاف کی اجازت نہیں دیتے، پنجاب میں آپریشن بھی دہشت گردی ہی کے خلاف ہے۔
اطلاعات کے مطابق خیبرپختونخوا اور کراچی سے شدت پسند بھاگ کر پنجاب میں اپنے رابطوں کے ذریعے رہائش اختیار کر چکے ہیں، اس لئے فوج کو سانحہ لاہور کے بعد مداخلت کرنا پڑی، اب ان ملاقاتوں سے تحفظات(دونوں طرف) کا ازالہ ہو گیا تو قومی سطح پر بہتر ہے، نہ صرف سیاسی (برسر اقتدار) اور عسکری قیادت میں خوشگوار تعلقات مفید ہیں، بلکہ مشترکہ کارروائی کے نتیجے میں شرپسندوں کا بھی خاتمہ ہو گا۔