تحریر: حبیب اللہ سلفی وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی کے خاتمہ کیلئے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں انہوںنے پہلے سعودی عرب اور پھر ایران کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سعودی عرب کی طرح ایران جاتے وقت بھی مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور معاون خصوصی طارق فاطمی ان کے ہمراہ ہوں گے۔ پوری دنیا کی نظریں اس وقت دونوں ملکوں کے مابین ثالثی کیلئے شروع کئے گئے اس سفارتی مشن پر ہیں۔
پہلے مرحلہ میں سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اوربعد ازاں تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقاتیں کی جائیں گی۔وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف دونوں ملکوں کی قیادت سے ملاقاتیں کر کے کشیدگی کی وجوہات اور تازہ ترین صورتحال کے حوالہ سے ان کا موقف جانیں گے اور پاکستان کی طرف سے باضابطہ طور پر ثالثی کی پیش کش کی جائے گی۔ اسی طرح وزیر اعظم نواز شریف وطن واپسی پر اپنے رفقاء سے صلاح مشورہ کریں گے اور پھر سوئٹزر لینڈ جائیں گے جہاں سعودی عرب و ایران کے مابین تنازعہ حل کرنے اور کشیدگی ختم کروانے کیلئے عالمی رہنمائوں سے تبادلہ خیال کریں گے او ربعد ازاں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بحث کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔
سعودی عرب میں شیعہ عالم شیخ نمر کی پھانسی کے بعد ایران میں سعودی سفارت خانہ جلائے جانے اور سعودی مخالف مظاہروں کے بعد دونوں ملکوں کے مابین سخت کشیدہ صورتحال پیداہوگئی جس کا اثر یقینی طور پر تمام مسلم ملکوں پر پڑ رہا تھا۔بعض قوتیں جن کی شروع دن سے کوشش رہی ہے کہ مسلمان ملکوں میں فرقہ وارانہ بنیادوں پرعوام الناس کو تقسیم کیا جائے تاکہ انہیں اپنے مذموم ایجنڈے پروان چڑھانے کا موقع ملے وہ موقع پا کر پوری طرح متحرک ہو گئیں اور پاکستان میں بھی اس کشیدگی کو ہوا دیکر سنی شیعہ مسئلہ کھڑ اکرنے کی کوششیں کی گئیں تاہم حکومت پاکستان اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس سوچ کی حوصلہ شکنی کئے جانے پر یہ سازشیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔پھانسیوں کے مسئلہ پرپاکستان میں بھی مختلف جماعتوں میں اختلاف پایاجاتا ہے۔
Hanging
شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کا خیال تھا کہ شیخ نمر کو فرقہ وارانہ بنیاد پر دی گئی ہے۔ اس لئے یہ فیصلہ درست نہیں ہے جبکہ دوسری جانب دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کا موقف ہے کہ جن 47 افراد کو پھانسی دی گئی ان میں سے صرف سات شیعہ ہیں باقی سنی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی طرح جتنے افراد کو پھانسیاں دی گئیں ان سب پر القاعدہ اور دوسری شدت پسند تنظیموں سے تعلق ، سعودی عرب میں بغاوت اور منافرت پھیلانے کے الزامات کے تحت عدالتوں پر مقدمات چلنے کے بعد سزائیں سنائی گئیں اس لئے یہ خالصتا سعودی عرب کا اندرونی مسئلہ ہے اس میں کسی کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ جب عدالتیں ثبوتوں کی فراہمی کے بعد سزائیں سناتی ہیں تو حکومتیں بھی ان پر عمل درآمد کی پابند ہوتی ہیں ایسی صورتحال میں ان پھانسیوں پر احتجاج بلاجواز ہے۔یہ دو مختلف آراء تھیں جودوسرے ملکوں کی طرح یہاں بھی پائی جاتیں ہیںلیکن اللہ کا شکر ہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرح عوامی سطح پر بھی سب اس بات پر متفق ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان اس تنازعہ کو جتنا جلد ممکن ہو سکے ختم ہونا چاہیے۔
کیونکہ اس کا اثرصرف سعودی عرب یا ایران پر ہی نہیں پڑتابلکہ پوری مسلم امہ اس سے متاثر ہو تی ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین ثالثی کیلئے دنیا بھر کے دیگرمسلمان ملکوں کی طرح پاکستان میں پہلے دن سے مضبوط آواز بلند ہو رہی ہے کہ پاکستان کو ترکی کے ساتھ مل کر اس کشیدہ صورتحال میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ دشمنان اسلام کی سازشیں دم توڑ سکیں۔ وطن عزیز پاکستان میں ہر جماعت کی طرف سے یہی مطالبہ کیا جارہا تھا ‘خود پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت بھی یہی چاہتی ہے کہ اس تنازعہ کے طول پکڑنے سے قبل ہی اسے ختم کر دیا جائے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اس سلسلہ میں سعودی عرب و ایران کی قیادت سے مسلسل رابطے جاری رکھے۔ اس دوران سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اور سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان جب پاکستان کے دورہ پر آئے تو ان کے ساتھ بھی جہاں مسلمان ملکوں کے اتحاد میں پاکستان کی شمولیت اور کردار سے متعلق تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا وہیں سعودی ایران تنازعہ کے خاتمہ کیلئے بھی مشاورت کی جاتی رہی کہ کس طرح اس صورتحال سے نمٹا جاسکتا ہے۔
PM Nawaz Meets Saudi Crown
خاص طور پر سعودی قیادت سے پاکستان مسلسل رابطہ میں ہے اور اسے مثبت رسپانس مل رہا ہے یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے پہلے سعودی عرب کا دورہ طے کیا اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات طے کی گئی۔ خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان نیک دل اور صلح جو انسان ہیں’ یقینی طور پر ان کی جانب سے پاکستانی قیادت کو بھرپور اعتماد ملے گا ویسے بھی سعودی عرب کی طرف سے صاف طور پر نظر آرہا ہے کہ وہ کسی طور اس تنازعہ کو ہوا نہیں دینا چاہتا۔اس کی پوری توجہ یمن میں حوثی بغاوت ختم کرنے اور اپنے ملک میں تکفیری گروہوں کی دہشت گردی کچلنے پر مرکوز ہے اس لئے وہ کوئی نیا محاذ نہیں کھولنا چاہتا۔ تہران میں سعودی سفارت خانہ جلائے جانے کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی اس امر کی مذمت کی ہے اسلئے امید کی جارہی ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے دورہ ایران کے دوران ایرانی صدر و دیگر حکام سے ملاقاتیں بھی فائدہ مند ثابت ہوں گی۔
وزیر اعظم نواز شریف شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقاتوں کے بعد مصر، انڈونیشیا اور ملائشیا کا بھی دورہ کریں گے اور اہم مسلم ملکوں کے سربراہان کو اعتماد میں لیں گے۔ وزیر اعظم کی طرف سے ان ممالک کے دورے بھی انتہائی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ سعودی عرب کے بعد بعض دوسرے مسلمان ملکوں نے بھی تہران میں سعودی سفارت خانہ جلائے جانے پر سخت ناراضگی کا اظہا رکرتے ہوئے اپنے سفیر واپس بلائے اور ایران سے سفارتی تعلقات ختم کئے ہیں۔ اس لئے انہیں بھی اعتماد میں لینا بہت ضروری ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق سعودی قیادت کی طرف سے مصالحت کیلئے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو واضح گرین سگنل مل چکا ہے۔ اسی طرح ایرانی قیادت کی جانب سے بھی مثبت ردعمل کا اظہا رکیا گیا ہے۔
پاکستانی قیادت دونوں ملکوں کی قیادت کو ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائے گی کہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی طور مسلم امہ کے حق میں نہیں ہے جبکہ اس دوران یہ تاثر بھی دور کیا جائے گا کہ پاکستان کسی ایک ملک کی حمایت نہیں کر رہا بلکہ خلوص نیت سے اس کشیدگی کے خاتمہ کیلئے کوشاں ہے۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ پاکستان آئندہ او آئی سی اجلاس میں بھی سعودی عرب اور ایران کے نمائندوں کو ایک ساتھ بٹھانے کیلئے کوشش کرے گا۔بہرحال پوری دنیا کی نظریں اس وقت وزیرا عظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ سعودی عرب و ایران کی جانب لگی ہوئی ہیں۔دونوں ملکوں کی طرف سے مثبت ردعمل پر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ان دوروں کے زبردست اثرات مرتب ہوں گے اور پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت کی کوششیں ان شاء اللہ ضرور کامیاب ہوں گی۔ پوری مسلم امہ کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔