غالب نے کہا تھا ”ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق”۔ حقیقت بھی یہی کہ اگر زندگی سے ہنگامہ منہا کر دیا جائے تو باقی ”کَکھ” نہیں بچتا۔ پاکستان اِس لحاظ سے خود کفیل ہے کہ اِس کی سیاسی تاریخ ہنگاموں سے پُرہے۔ کوئی جمہوری دَور ایسا نہیں جس میں جلسے جلوس، ریلیاں اور توڑ پھوڑ نہ ہوئی ہو۔ کبھی شیعہ سُنی فساد تو کبھی ایم کیو ایم کی ٹارگٹ کلنگ۔ کبھی دہشت گردی اور بم دھماکے تو کبھی آمریتوں کے گھور اندھیرے لیکن اکتوبر 2011ء سے (جب تحریکِ انصاف میدانِ سیاست میں اُبھر کر سامنے آئی) اب تک کروٹیں بدلتی سیاست کو ایک پَل بھی چین نصیب نہیں ہوا۔ 2013ء سے 2018ء تک کپتان احتجاج پر رہا۔ اِس احتجاج میں گاہے گاہے مولانا طاہر القادری کا تڑکہ بھی لگتا رہااور مولوی ”گالی گلوچ” کا بھی۔
2018ء کے متنازع انتخابات کے بعد سوائے مولانا فضل الرحمٰن کے پارلیمنٹ تک پہنچنے والی سبھی سیاسی جماعتیں متفق نظر آئیں کہ تحریکِ انصاف کو حکومت کرنے کا موقع دیا جائے۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے کی مطلق کوشش نہیں کی۔ کوئی جلسہ نہ جلوس، ہنگامہ نہ توڑپھوڑ لیکن پھر بھی کپتان صاحب کنٹینر سے نہیں اُتر سکے۔ اُنہیں سرے سے ادراک ہی نہیں ہوا کہ اب وہ اپوزیشن لیڈر نہیں، وزیرِاعظم ہیں جن کا کام سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ اُنہوں نے وہی رویہ اپنائے رکھا جو کسی اپوزیشن لیڈر کا ہوتا ہے۔ تادمِ تحریر وہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا تو درکنار، ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے۔ اندرون و بیرون ملک اُنہوں نے اپوزیشن کو بدنام کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر ایک لمحے کے لیے تسلیم کر لیا جائے کہ ساری اپوزیشن ہی کرپٹ ہے تو پھر نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن جیسے ادارے کس مرض کی دوا ہیں۔ وہ اِن اداروں کو اپنا کام کرنے دیتے اور خود ملکی فلاح وبہبود کا سوچتے لیکن اُنہیں تو چور چور، ڈاکو ڈاکو، نہیں چھوڑوں گا، این آر او نہیں دوںگا جیسے نعرے لگانے کا شوق ہی بہت ہے اور اُن کے حواری درباری اُن سے بھی دوقدم آگے۔ اب ”تنگ آمد، بجنگ آمد” کے مصداق ساری اپوزیشن نے احتجاج پر کمر کَس لی اور حکومت بوکھلاہٹوں کا شکار۔
نواز لیگ کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی سے میاں نواز شریف نے لندن سے ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے کہا ”کسی کو ہروانا یا جتوانا بڑے جرائم ہیں۔ الیکشن ثبوتاژ کرنا چھوٹا جرم نہیں۔ آر ٹی ایس بند کرکے ہمیں ہرایا گیا۔ مقابلہ سلیکٹڈ سے نہیں، جواب اُسے لانے والوں کو دینا ہوگا۔ موجودہ حالات میں خاموش نہیں رہ سکتا۔ میں عوام کا مینڈیٹ چوری کرنے والوں کو سلام نہیں کرتا۔ سلام اُسے کرتا ہوں جو آئین اور قانون کا احترام کرتا ہے”۔ مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنس میں کہاکہ اُس نے پہلے دن سے ہی اِس حکومت کو تسلیم نہیں کیاتو پھر مذاکرات کیسے۔ میاں صاحب نے طے کر لیا ہے کہ اب کسی سے بات نہیں ہوگی۔ یہ حکمران ایک جھٹکے کی مار ہیں۔ میاں نوازشریف اور مریم نوازکے لہجوں کی تلخی اُس خطرناک رجحان کا پتہ دیتی ہے جو ملک کے لیے بہتر ہے نہ قوم کے لیے۔ اِس پر مستزاد نیب کی پھرتیاں اور پکڑ دھکڑ کا موسم ۔
حکومتی بزرجمہر میاں شہبازشریف کی گرفتاری کی کئی دنوں سے تانیں اُڑا رہے تھے۔ خود میاں شہبازشریف نے اپنی گرفتاری سے 6 دن پہلے بتا دیا تھا کہ اُنہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ اگر حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ گرفتاریوں سے نون لیگ منتشر ہو جائے گی تو یہ اُن کی خام خیالی ہے۔اِس گرفتاری سے نون لیگ منتشر نہیں، متحد ہوگی اور ایسی گرفتاریاں نون لیگ، پیپلزپارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو مزید قریب لائیں گی۔ حکومتی کارندے جتنا جی چاہے الزامات کی بارش کریں، میاں نوازشریف کو غدار اور بھارت کی زبان بولنے والاکہیں، حقیقت یہی کہ میاں نوازشریف نے کوئی غلط بات نہیں کہی۔ اُنہوں نے پارلیمنٹ کی مضبوطی کی بات کی ہے۔
اگر پارلیمنٹ مضبوط ہو گی تو ادارے بھی مضبوط ہوںگے اور انتہائی محترم فوج بھی۔ وزیرِاعظم صاحب متعدد بار کہہ چکے کہ فوج اُن کی پالیسیوں کی مکمل حمایت کرتی ہے اور تمام ادارے ایک صفحے پر ہیں۔ اُن کا یہ بیان بھی موجود کہ آرمی چیف نے اُن سے پوچھ کر اپوزیشن لیڈروں سے بات کی۔ بجا! سوال مگر یہ کہ جب سارے ادارے ایک صفحے پر ہیں تو کیا بجلی کی قیمت پانچویں دفعہ اِن اداروں کی مشاورت سے بڑھائی گئی؟۔ کیا گیس کی قیمت میں 140 فیصد اضافہ اِن اداروں نے کیا؟۔ کیا آٹے اور چینی کے بحران کے ذمہ دار بھی یہ ادارے ہیں؟۔ کیا روزافزوں مہنگائی اِنہی اداروں کی ایما پر ہو رہی ہے؟۔ حقیقت یہی کہ یہ سب حکمرانوں کی نااہلی کا شاخسانہ ہے اور اگر اپوزیشن سڑکوں پر نکلتی ہے تو اُسے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہوگی کیونکہ بھوکوں مرتی قوم سڑکوں پر آنے کے لیے بیقرارہے۔ سرویز بھی یہی بتا رہے ہیں کہ عوامی رائے تحریکِ انصاف کے حق میں نہیںاور عوام یہ سمجھتے ہیں کہ اِس حکومت کی کارکردگی پہلی حکومتوں سے کہیں زیادہ بری ہے۔
موجودہ صورتِ حال یہ کہ حکومتی اتحادی مایوس ہیں ۔ بی این پی (مینگل) پہلے ہی حکومت سے الگ ہوکر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ چکی۔ ایم کیوایم اور جی ڈی اے ہواؤں کا رُخ دیکھ کر چلے گی۔ ویسے بھی اتحادی جماعتوں کے ساتھ کیے گئے وعدے وفا نہیں ہوئے اِس لیے حکومت اور اتحادیوں میں سردمہری برقرار ہے۔ تحریکِ انصاف کی داخلی پھوٹ اب کوئی راز نہیں رہی۔ اُس میں کئی گروہ پیدا ہو چکے اور زبانیں کھل چکیں۔ فوادچودھری نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری جنرل جہانگیرترین اور اسد عمر نے پارٹی کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچایاہے۔ پی ٹی آئی حکومت منظم اصلاحات کے ذریعے نظام کو زیادہ پیشہ ورانہ اور خودمختار بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اُنہوں نے کہا ”عوام نے گری میوے اور نَٹ بولٹ ٹھیک کرنے کے لیے نہیں بلکہ نظام میں اصلاحات لانے کے لیے ہمیں یا وزیرِاعظم عمران خاں کو منتخب کیاتھا لیکن پی ٹی آئی کے حامیوں سمیت اُن بیشتر پاکستانیوں کو مایوسی ہوئی جنہوں نے عمران خاں کی پارٹی کو اِس اُمید پر ووٹ دے کر ایوانِ اقتدار تک پہنچایا تھا کہ قوم کی تقدیر بدلنے والا لمحہ بس جلد ہی آنے والاہے”۔ عوام دیکھ رہے ہیںکہ تحریکِ انصاف کے اندر جوتیوں میں دال بَٹ رہی ہے اور گھر کے گندے کپڑے سرِعام دھوئے جا رہے ہیں۔
اب جبکہ تحریکِ انصاف اندرونی انتشار کا شکار ہے، اتحادی مایوس ہیں اور مہنگائی اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ رہی ہے تو ایسے میں اپوزیشن کو حکومت گرانے کے لیے محض ایک دَھکے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی معجزہ رونماء ہو گیا اور موجودہ حکومت کو اگلے اڑھائی سال حکومت کرنے کا موقع میسر آگیا تو پھر بھی حالات کو درست کرنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ 2023ء کے انتخابات میں اُسے ایک دفعہ پھر ”غیبی امداد” مل جائے گی تو یہ اُس کی خام خیالی ہے کیونکہ اُس وقت تک پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہوگا اور کسی بیرونی مداخلت کا ایسا بندوبست ناممکن ہوگا جیسا 2018ء کے انتخابات میں ہوا۔ اِس لیے بہتر یہی ہے کہ وزیرِاعظم صاحب مِڈٹرم انتخابات کا سوچیں کیونکہ ابھی بھی اُن کے چاہنے والے بہت ہیں۔