سیاسی ضرورت کے قیدی ۔۔؟

Senate

Senate

تحریر : قادر خان یوسف زئی

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر حاصل خان بزنجو کا کہنا ہے، ”سینیٹ کو اور نہ بلوچستان حکومت کو علم ہے کہ وفاقی حکومت اتنے اہم فیصلے کرنے جا رہی ہے، جس کے ناصرف بلوچستان بلکہ پورے ملک پر اثرات مرتب ہوں گے۔” ان تحفظات کا اظہار وزیراعظم کے کئی ایسے فیصلوں پر کیا جارہا ہے، جس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کو اعتماد میں لیے بغیر انفرادی حیثیت میں معاملات طے کیے جارہے ہیں۔ بالخصوص ریکوڈک، کاپر مائننگ اور گوادر میں آئل ریفائنری کے اہم ترین منصوبے سعودی عرب کو عجلت میں دینا شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ مائننگ کے شعبے میں سعودی عرب ناتجربہ کار ہے لیکن اس کے باوجود اہم ترین ریکوڈک اور کاپر مائننگ جیسے منصوبے دینے پر تحفظات سامنے آئے ہیں۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے انتہائی قریبی معتمد احمد الخطیب، جو سعودی ‘فنڈ فارانویسٹمنٹ’ کے سربراہ بھی ہیں، کا اسلام آباد کا غیر اعلانیہ دورہ اہم ترین معاملہ ہے۔ سی پیک منصوبوں میں سعودی عرب کو تیسرا پارٹنر بنانے کے بعد دو سخت ترین حریفوں کے درمیان کشیدگی کے اثرات سے پاکستان کے متاثر ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے کسی غیر متوقع پراکسی وار میں ملوث ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔

کسی مملکت کے کسی بھی ملک سے ترقیاتی یا باہمی تعلقات اس کا داخلی معاملہ ہوتا ہے، لیکن پاکستان کی جغرافیائی حیثیت انتہائی حساس ہے، تین پڑوسی ممالک سے تعلقات مثالی نہیں۔ بھارت اور افغانستان تو پاکستان کی سلامتی کے خلاف کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں اور ان کی سازشوں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں کئی ایسے معاملات ہیں جو حساس نوعیت کے ہیں۔ ایران سے تعلقات غیر جانبدارانہ رکھنے کے سبب پاکستان کو عرب ممالک کی خفگی کا سامنا ہے۔ وزیراعظم کے دورہ? سعودیہ کے بعد یہ تاثر بھی زمیں بوس ہوچکا کہ سعودی حکومت نے 10ارب ڈالرز کی مالی امداد دی، تاہم دعویٰ ہے کہ سی پیک کے تین اہم منصوبوں میں سعودی عرب سرمایہ کاری کرے گا، جس کے بعد سعودی کمپنیوں کو اجازت مل جائے گی کہ وہ ان منصوبوں پر اپنی مرضی کے وسائل استعمال کرے۔ اس ضمن میں تحفظات ہیں کہ امریکا، سعودی عرب کے کندھے پر بندوق رکھ کر حساس ترین صوبے میں مشکوک سرگرمیا ں کرسکتا ہے۔ یہ کوئی مفروضہ بھی نہیں، کیونکہ امریکا یہ سب کچھ کرتا رہا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں (سابق فاٹا) میں سی آئی اے ایجنٹ، بلیک واٹر امریکا کے بیشتر جاسوسی اداروں کی مشکوک سرگرمیاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وزیراعظم کو سفارتی محاذ پر مسلسل شکست کا سامنا ہے۔ شاید یہ ان کی ناتجربہ کاری یا حد سے زیادہ خوداعتمادی کے باعث ہورہا ہے، لیکن ان کے ساتھ جو ٹیم ہے وہ انتہائی تجربہ کار لوگ ہیں اور ماضی کی کئی حکومتوں کا باقاعدہ حصہ رہ چکے ہیں، عالمی میزان کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اس لیے حیرت اس پر ہوتی ہے کہ ”نئے پاکستان” کا منشور لانے والے قریباً ہر فیصلہ پہلے اور ”غور” بعد میں کررہے ہیں۔ لگتا ہے کہ جیسے پہلے سے ایک لسٹ دے دی گئی ہو کہ آپ نے یہ کام کرنا ہے۔ اس موقع پر دوراندیشی کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان کو اس وقت جن نامساعد حالات کا سامنا ہے، اس سے باہر نکلنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اور انتہائی غوروخوض کی ضرورت ہے۔
ایران اس وقت مشرق وسطیٰ میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ دو عالمی قوتیں مشرق وسطیٰ میں باہمی جنگ و جدل میں مصروف ہیں۔

شام کے مسئلے کو لے کر روس اور امریکا بلاک بنا ہوا ہے۔ امریکا اپنے مفادات کے لیے کسی بھی ملک کو خاطر میں نہیں لاتا۔ روسی بلاک میں شریک ممالک اور امریکی حلیف ملکوں کے سامنے چار اہم ریاستیں براہ راست ہدف بنی ہوئی ہیں، جس میں ایران، چین، ترکی اور پاکستان شامل ہیں۔ عالمی طاقتیں براہ راست اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے بڑے پیمانے پر شطرنج کھیل رہی ہیں، جس کے کئی مہرے ہیں۔ سعودی عرب اس وقت تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ قدامت پسند معاشرے سے جدت پسندی کی جانب تیزی سے بڑھنے والی اس اہم ترین مملکت کو کئی سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ایران سے سعودی عرب کے کشیدہ تعلقات بام عروج پر ہیں۔ پاکستان اس وقت دو ایسی کشتیوں میں سوار ہے جو بُری طرح جل رہی ہیں، خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اگر کسی ایک کشتی کا سوار بھی بنتا ہے تو اس میں لگی آگ سے بچ نہیں سکتا۔

بھارت اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات انتہائی حساس ہیں۔ بھارت تو اپنی انتخابی مہم میں گیدڑ بھبکیوں کی بدولت ووٹ حاصل کرتا ہے۔ اگر وہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی بند کردے تو بھارتی سیاست دانوں کے پاس کوئی ایشو ہی نہ رہے۔ بھارتی عوام کو حکومتی ناکامیوں سے ناواقف رکھنے کے لیے میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندو انتہا پسند جماعت کا منصوبہ تو پہلے ہی سامنے آچکا تھا، جب ایک اسٹنگ آپریشن میں کئی میڈیا ہائوسز نے اس سازشی منصوبے میں شرکت کے لیے آمادگی ظاہر کردی تھی کہ بھارتی انتخابات میں ہندو شدت پسندوں کو خصوصی کوریج دی جائے گی۔ کابل کی کٹھ پتلی حکومت تو وہ سب کرتی ہے جو امریکا کہتا ہے۔ امریکا اس خطے میں وہ سب چاہتا ہے جو بھارت مانگتاہے۔ اس لیے پاکستان اس وقت چہار اطراف سے ظاہر و مخفی حملوں کا مقابلہ کررہا ہے۔ چین کے ساتھ شراکت ”گیم چینجر” منصوبہ ہے، لیکن جس تیزی سے اب سی پیک متنازع بنتا جارہا ہے، یہ امر انتہائی خطرناک حالات کی نشان دہی کررہا ہے۔ نئی حکومت کی طرز حکمرانی بُری طرح ناکام نظر آرہی ہے، انہیں زمینی حقائق کے مطابق ہوش میں آنا ہوگا۔ حکومت چلانا سوشل میڈیا کی مہم نہیں کہ اس سے موجود مسائل کو حل کردیا جائے۔ سوشل میڈیا کے بخار سے باہر نکلنا ہوگا۔ معاشی بحران پہلا مسئلہ ہے۔ یہ بھینسیں بیچنے سے حل نہیں ہوگا۔ سادگی مہم، کے غبارے سے ہوا نکل چکی۔ اس لیے اب اس کا ڈھنڈورا روک کر سفارتی و معاشی محاذ پر توجہ دینا ہوگی۔

پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں کو ایک صفحے پر آنا ہوگا۔ سعودی عرب کے سی پیک منصوبے میں شرکت سمیت بھارت، افغانستان، امریکا اور دیگر ممالک سے تعلقات کو ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کسی بھی پڑوسی ملک کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا، وہ ایٹمی طاقت ہے، اس کے خلاف مہم جوئی کی کوشش کسی بھی ملک کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوگی۔ لیکن اہم بات یہ کہ اس وقت طاقت کا محور مضبوط معیشت قرار پاتی ہے۔ پاکستان کو مربوط راہ متعین کرنا ہوگی۔ پارلیمنٹ اگر ملکی مسائل کا حل نہیں نکال سکتی تو پھر کھربوں روپے خرچ کرنا تو گھاٹے کا سودا ہے۔ حکمراں جماعت کے پاس اگر مملکت کو مضبوط بنانے کی پالیسیاں اور ہمت موجود نہیں تو انہیں بلند بانگ دعوے کرکے قوم کو خوش فہمی میں مبتلا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس وقت چین پاکستان کا قابل اعتماد اتحادی ہے۔ ہمیں ان سازشوں پر گہری نظر رکھنا ہوگی کہ ایسے اقدامات نہ ہو جائیں کہ پاکستان اور چین کے درمیان مزید غلط فہمی کو جگہ مل سکے۔ سی پیک کو کسی بھی ملک کے لیے جنگ کا اکھاڑا بنانے سے قبل تمام امور کو باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے پاس اس وقت واحد یہی ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے تمام تر توقعات وابستہ کرلی گئی ہیں کہ پاکستان کو معاشی مشکلات سے سی پیک ہی نکال سکتا ہے، لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ متعدد بار ہماری مملکت عالمی دبائو کے سبب مفاد عامہ کے کئی اہم منصوبوں سے دستبردار ہوچکی ہے۔ عوام میں بے چینی اور عدم اعتماد کی فضا میں اضافہ ہورہا ہے۔ سیاسی نظام سے تو عوام کا اعتماد اٹھ چکا۔ پارلیمان کی بے توقیری اور غیر موثر کردار کی وجہ سے عوام تیزی سے مایوسی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے 100روز پورے ہونے سے قبل موجودہ سرکار کے خاتمے کی مدت اور ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کی چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ یہ عنصر قابل تشویش ہوگاکہ لوگوں کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوجائے اور مایوسی کے دلدل میں جانے والے عوام کسی بھی غیر مقبول نظام کو قبول کرنے کو تیار ہو جائیں۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی