تحریر: طارق حسین بٹ وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد نوز شریف اپنے علاج کے لئے لندن کی جانب عازمِ سفر ہوئے تو کیا کیا چہ مگوئیاں نہ ہوئیں۔ کسی نے کہا کہ وہ اب طن نہیں لوٹیں گئے۔کسی نے کہا کہ یہ ان کا بحثیتِ وزیرِ اعظم آخری دورہ ہے۔کسی نے کہا کہ وہ اقتدار کسی دوسری شخصیت کے حوالے کرکے جلا وطنی کی زندگی گزاریں گئے۔باکل ویسے ہی جیسے جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں انھوں نے سرور پیلس میں گزاری تھی۔کسی نے کہا کہ شریف خاندان کے اندر شدید اختلافات ہیں۔کچھ تجزیہ کاروں نے شریف خاندان کے ابھرتے ہوئے جواں سال راہنما حمزہ شہباز شریف کی خاموشی کو شریف خاندان میں نااتفاقی کا جواز بنا کر پیش کیا تا کہ عوام کو کسی نہ کسی طرح سے یہ باور کروایا جائے کہ شریف خاندان باہمی انتشاار اور عدمِ اعتماد کا شکار ہے لہذا اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کی جگہ وزارتِ عظمی کے امیدوار ہیں۔یہ وہی بات ہے جسے شیخ رشید احمد نے اپنے حالیہ ٹیلیویژن انٹر ویو میں بھی دہرایا ہے۔حالانکہ میاں شہباز شریف میاں محمد نواز شریف کے انتہائی تابع فرمان بھائی ہیں اور انھوں نے ایک د فعہ پھر آصف علی زرداری کے خلاف سوئیس اکائو نٹ کا مسئلہ کھڑا کر کے پی پی پی کے خوب لتے لئے ہیں۔ان کا برملا کہنا تھا کہ جو ہمیں پاناما لیکس میں گھسیٹے گا اسے اپنے سویئس اکائونٹ کا حساب بھی دینا ہو گا اور چھ ارب روپے خزانے میں جمع کروانے ہوں گئے۔یہ عوام کا پیسہ ہے جسے آصف علی زرداری نے نا جائز طریقے سے ہڑپ کیا ہوا ہے۔شہباز شریف کی اسی ایک للکار کے بعد آصف علی زرداری نے چپ سادھ لی ہے لیکن بلاول بھٹو ابھی تک جوشیلے بیانات دے کر عوام کی توجہ پاناما لیکس پر مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔
اس وقت پی پی پی دہرا کھیل کھیل رہی ہے۔آصف علی زرداری میاں محمد نواز شریف کے ساتھ مفاہمت کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں اور ان کی حکومت کو ہر حا ل میں گرنا نہیں دینا چاہتے کیو نکہ انھیں خبر ہے کہ جس دن میاں محمد نواز شریف کی حکومت گر گئی ان کی زندگی بھی اجیرن بنا د ی جائیگی۔میاں محمد نواز شریف کے اقتدار کا خاتمہ پی پی پی کیلئے ایک نئی آزمائش کا پیش خیمہ ثابت ہو گا کیونکہ پی پی پی کو اپنے پانچ سالہ اقتدار کا حساب دینا پڑ جائیگا جو کہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت میں ممکن نہیں ہے۔جب معاملہ تو بہ گل حاجی مرا من بگوئم حاجی ترا (تو مجھے حاجی کہہ میں تمھیں حاجی کہوں گا) والا ہو تو پھر احتساب اور جوابدہی کا ڈول کہاں ڈالا جائیگا۔ہمارے ہاں جمہوریت کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ یہ جیتنے والے کو ہر قسم کے احتساب سے بالا تر کر دیتی ہے۔جیتنے والے کا نعرہ یہ ہوتا ہے کہ مجھے عوام نے اپنے مینڈیٹ سے نوازا ہے۔ عوام کا مجھے ووٹ دینا مجھے ہر قسم کی شرافت اور نیک نامی کا سرٹیفکیٹ ہے لہذا ب میں جو جی چاہے کروں کیونکہ میں ایک منتخب انسان ہوں اور مجھے عدالتوں میں گھسیسٹنا یا جوابدہی کیلئے بلانا عوام کے عطا کردہ استحقاق کی توہین ہے۔،۔
Bilawal Bhutto
ایک طرف تو آ صف علی زرداری سیاسی کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری میاں محمد نواز شریف کے خللاف دھواں دار بیانات دینے میں مشغول ہیں ۔آجکل ان کے ٹویٹ کافی مقبول ہیں۔باپ بیٹے کی سیاسی حکمتِ عملی ایک دوسرے کی ضد نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ سیاست ہے اور سیاست میں سٹریٹیجی بنانا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے۔باپ میاں محمد نواز شریف کو اپنے جال میں الجھائے ہوئے ہے جبکہ بیٹا پی ٹی آئی کو اپنے جال میں جکڑے ہوئے ہے۔مسلم لیگ (ن) یہ سمجھ رہی ہے کہ پی پی پی اس کے ساتھ ہے جبکہ عمران خان یہ سمجھ رہے ہیں کہ پی پی پی اس کے ساتھ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پی پی پی پنجاب میں اپنی جگہ بنانے کی تگ و دو میں ہے اور کسی نہ کسی طرح سے اپنے وجود کا احساس دلوانا چاہتی ہے۔پاکستان تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ن) پنجاب کی دو بڑی جماعتیں ہیں اور آئیندہ انتخابی معرکہ انہی دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان برپا ہوگا۔
ایک وقت تھا کہ پی پی پی پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ہوا کرتی تھی لیکن پھر پارٹی قیادت کی عوام سے دوری اور وزراء کی کرپشن اور جیالوں سے بے رخی نے ایسا رنگ دکھایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پی پی پی کاپنجاب سے صفایا ہو گیا ۔میں نے اپنی ساری سیاسی زندگی میں کسی بھی بڑی جماعت کا اس طرح کا حشر نہیں دیکھا کہ ایک بہت بڑی جماعت سب سے بڑے صوبے سے ایک بھی نشست جیتنے سے محروم ہو گئی جبکہ کئی حلقوں میں اس کے کئی سرکردہ راہنمائوں کی ضمانتیں بھی ضبط ہو گئی ہوں ۔لاہور جیسے تاریخی شہر میں جہاں ذولفقار علی بھٹو کے زمانے میں پی پی پی راج کیا کرتی تھی اس کے کئی امیدواروں کو پانچ ہزار سے بھی کم ووٹ ملے جو اس کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چائیے تھا لیکن پی پی پی کی قیادت نے پھر بھی اس جانب اپنی توجہ مبذول کرنے کی زحمت گوارا نہ کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی پی پی صرف ٹیلیویژن کی سکرینوں تک محدود ہو کر رہ گئی اور عوام سے اس کا تعلق بالکل ختم ہو گیا۔،۔
پی پی پی قیادت کا عمران خان سے نئی قربتوںکا مقصد عوام میں اپنی ساکھ کو بحال کرنا ہے۔یہ سچ ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت نوجوانوں کی امیدوں کا مرکز ہے اور ایک مخصوص طبقہ پی ٹی آئی کیلئے متحرک بھی ہے لیکن پی پی پی کے ساتھ مفاہمانہ رویوں سے کیاوہ طبقہ پی پی پی کی جانب مائل ہو جائیگا اور پی ٹی آئی کی جگہ بلاول بھٹو زرداری سے اپنی امیدین وابستہ کر لے گا ؟ میری ذاتی رائے ہے کہ جب تک عمران خان ایک دفعہ وزارتِ عظمی کا تاج اپنے سر بھی نہیں سجا لیتے یہ مخصوص طبقہ کسی دوسری جانب دیکھنا اپنے لئے گناہ تصور کرتا ہے ۔یہ مخصوص طبقہ میدانِ سیاست میں یہ ثابت کرنے کیلئے نکلا ہوا ہے کہ وہ پاکستانی سیاست کو بدل دینے کی طاقت رکھتا ہے اور اس نے ایسا کر کے دکھانا ہے چاہے اس میںا سے کتنی ہی اذیتوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مخصوص طبقہ اپنے قائد کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے اور اس کے ہر حکم پر اپنی آنکھیں بچھائے ہوئے ہے۔
Imran khan
اسے نہ گرمی کی شدت سے خوف ہے اور نہ سردی کی یخ بستگی اسے ڈراسکتی ہے۔وہ موسموں کی سختیوں سے گھبرا کراپنے گھر کے اندر مقید ہونے والا نہیں ہے بلکہ اپنے قائد کی خاطر سخت گرمی میں بھی جلسے اور جلوسوں کی رونق بڑھانے کا عزم لئے ہوئے ہے۔عمران خان خود بھی عالمی معیار کا سپورٹسمین ہے لہذا وہ بھی جون جولائی کی گرمیوں میں دھرنوں اور جلسے جلوسوں کیلئے یوں نکل پڑتا ہے جیسے کسی خو شگوار موسم میں کرکٹ کا میچ کھیلنے نکلا ہوا ہو۔قائد عیش و آرام کو تیاگ کر سڑک پر دھوپ کی تمازت برداشت کرنے کیلئے نکل کھڑا ہو تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے چاہنے والے ائر کنڈیشنڈ کمروں میں نرم نرم بستروں پر محوِ استراحت ہوں۔اپنے قائد کے قدم سے قدم ملا کر چلنا ہی قیادت سے محبت اور چاہت کا پیمانہ ہوتا ہے اور پی ٹی آئی کی قیادت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے دیوانے اس کی خاطر اپنی ساری آسائشوں کو بالائے طاق رکھ کر اس کی محبت میں میدان میں نکل پڑتے ہیں۔ہمارے ایک دوست آصف رشید اسجد کا خوبصورت شعر ہے(یہ تو میں تیری محبت میں چلا آیا ہوں۔،۔ورنہ مجھ کو کچھ کام نہیں تیری سلطانی سے) عوام کی یہی محبت عمران خان کا حقیقی اثاثہ ہے اور اپنی اسی عوامی قوت سے وہ میاں برادران کو ڈراتا رہتا ہے۔
میاں برادران کا اس سے خوفزدہ ہونا بنتا بھی ہے کیونکہ اس کے پاس سر پھروں کا ایسا جمِ غفیر ہے جو اس کے ایک اشارے پر سب کچھ قربان کرسکتا ہے ۔ایک زمانہ تھا کہ حکمران پی پی پی کی قیادت سے خوفزدہ رہا کرتے تھے کیونکہ عوامی طاقت کسی زمانے میں ان کے ہاتھ میں ہواکرتی تھی ۔ ذولفقار علی بھٹو نہ رہے تو یہ طاقت کسی حد تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاس چلی گئی لیکن اس کے بعد کیاہوا سب تاریخ ہے۔ جنرل ضیا لحق کے بے رحم مارشل لاء کے سامنے ڈٹ جانے والے پی پی پی کے جیالے ہی تو تھے ۔ دنیا کچھ بھی کہتی رہے لیکن سچ یہی ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جیالوں جیسی سرشاری کسی جماعت کے کارکنوں نے نہیں دکھائی۔بقولِ فیض۔،۔ یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ راہ سیاہی لکھی گئی ۔،۔ یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے