تحریر : محمد نورالہدیٰ تعلیمی ادارے تعلیم و تربیت کی بہترین آماجگاہیں ہوتے ہیں۔ وطن عزیز کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل کرنے میں بنیادی کردار انہی اداروں کا ہوتا ہے۔ تعلیم کی اہمیت مسلمہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بیشتر سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں جہاں ملک کے طول و عرض سے طلباء حصول علم کیلئے آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تعلیمی ادارے مذہبی اور کچھ دنیاوی تعلیم کے حامل ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے طلباء کا ایک خاص حصہ انہی پارٹیوں کے مسالک سے تعلق رکھتا ہے ، جبکہ بیشتر دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات بھی ان تعلیمی اداروں سے مستفید ہورہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے زیر انتظام ان تعلیمی اداروں میں ان جماعتوں کے افکار و نظریات کا پرچار نہ ہو ، یہ کیسے ممکن ہے … البتہ یہ امر توجہ طلب ہے کہ یہاں سیاسی پارٹیوں کی مداخلت کس قدر ہے ، نیز معیار تعلیم کیسا ہے؟۔
چیئرمین تحریک انصاف کا نمل ، جماعت اسلامی کے منصورہ سکولز و کالجز اور مدارس ، جے یو آئی ، سنی تحریک ، لبیک تحریک اور دیگر مذہبی سیاسی تنظیموں کے مدارس ، پاکستان عوامی تحریک کے مہناج القرآن سکول ، کالج و یونیورسٹی ، جماعت الدعوہ / ملی مسلم لیگ کے الدعوہ سکولز … غرض بہت سی سیاسی / مذہبی تنظیمات ، فرقے اور سیاسی افراد اپنی اپنی درسگاہوں کے ذریعے طلباء میں اپنی تعلیمات ، نظریات و اقدار کی ترویج کررہے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں ایک خاص حصہ انہی سے وابستگی رکھنے والوں کا داخلہ لیتا ہے ، جبکہ زیادہ تر دیگر دائروں سے تعلق رکھنے والے طلباء ہوتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں یہاں اپنی طلبہ تنظیموں اور ان درسگاہوں کی انتظامیہ کو استعمال میں لاتے ہوئے کھلے یا ڈھکے چھپے انداز میں اپنی افرادی قوت تیار کررہی ہوتی ہیں۔ البتہ یہ امر توجہ طلب ہے کہ یہ افرادی قوت کس حد تک بعدازاں پیشہ ورانہ زندگی میں ان جماعتوں کے لئے مفید ثابت ہوتی ہے ، کیونکہ بعض پارٹیوں کے حوالے سے اس کے تلخ نتائج ہی دیکھے گئے ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مذکورہ تعلیمی ادارے معیار کے اعتبار سے کہاں کھڑے ہیں۔ اگرچہ یہاں سے جو کھیپ تیار ہوکر نکلتی ہے وہ کسی نہ کسی حوالے سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا اپنا حصہ ڈالے ہوئے ہیں … مگر معیار کے لحاظ سے بہرحال ان پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔
میں نے بہت سے تعلیمی اداروں کے ماحول کا مشاہدہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جن سیاسی پارٹیوں کی درسگاہیں تعلیم سے زیادہ اقدار و روایات اور نظریات کی پاسداری پر توجہ دیتی ہیں ، وہ معیار بنانے میں ناکام رہی ہیں … جبکہ اس کے برعکس جنہوں نے اس سے ہٹ کر تعلیمی ادارے چلائے ، ان کی کامیابیاں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔
مثلاً الدعوہ سکولز اپنے مسلک اور اقدار و روایات پر سختی سے کاربند ہیں اور اپنے طلبہ اور اساتذہ کو بھی اسی جانب راغب کرتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے طلباء اور اساتذہ کی باقاعدہ ”ذہن سازی” کی جاتی ہے … نائن الیون اور پاکستان پر لگنے والی پابندیوں اور الزامات کے بعد جب حالات میں ٹوئسٹ آیا تو ان سکولز کا دائرہ کار بھی محدود ہوگیا ہے۔ یہاں محض ہم مسلک طلباء ہی داخلہ لینے لگے اور دیگر فیملیاں اس جانب رخ کرنے سے گریزاں ہونے لگی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بیشتر ہم مسلک افراد بھی اپنے بچوں کو یہاں کی بجائے دوسرے سکولوں میں بھیجنے پر ترجیح دینے لگے ہیں۔ معیار کی بات کی جائے تو اک سوالیہ نشان دکھائی دیتا ہے۔
منصورہ سکولز اور کالجز مولانا مودودی کے فکر اور نظریات کی ترویج کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ یہاں آنے والے زیادہ تر طلبہ و طالبات کا تعلق زیادہ تر جماعتی حلقوں سے ہی ہوتا ہے ، جن کا نہیں ہوتا ، انہیں یہ ادارے جماعت کا فالوور بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض طلبہ تعلیم سے فارغ ہو کر جماعت اسلامی جوائن کرلیتے ہیں اور زیادہ تر نہیں کرتے۔ تاہم یہ امر شاہد ہے کہ جماعت اسلامی سے ایسوسی ایٹ تعلیمی اداروں میں ”دعوت” کا حلقہ بہت مضبوط ہوتا ہے۔ یہاں مذکورہ تعلیمی ادارے کی طرح طلبہ و طالبات کو نظریات پر سختی سے کاربند تو نہیں رکھا جاتا ہے مگر اسلام اور اسلامی اقدار کے مطابق وقت گزارنے کی ترغیب دی جاتی ہے … البتہ مطلوبہ تعلیمی معیار یہاں بھی سوالیہ نشان ہے۔ جماعت اسلامی بحیثیت ایک تنظیم ، تعلیمی ادارے چلانے اور یہاں معیار بنانے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔
مذکورہ دونوں جماعتوں کے تعلیمی ادارے چونکہ اپنے اصل سے ہٹنے کی بجائے اپنے افکار و نظریات کی ترویج پر بھی بھرپور توجہ دیتے ہیں ، شاید اسی لیے نتائج اور معیار نہیں دے پا رہے ، جبکہ ان کے مقابلے میں جن درسگاہوں میں توجہ ہی صرف تعلیم پر ہے ، وہاں معیار اور نتائج دونوں قابل ذکر ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کیسے ! … نمل پوری دنیا میں معیار کے اعتبار سے قابل فخر گردانی جاتی ہے ۔ یہاں داخلہ لینے والے بچے زیادہ تر ممی ڈیڈی ماحول سے آتے اور ماڈرن فیملیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مذہبی تعلیم اور اقدار و روایات کیا ہوتی ہیں ، یہاں کوئی نہیں جانتا ، البتہ یہاں کے طلبہ کی پیشہ ورانہ زندگی کے حوالے سے اس قدر تربیت کی جاتی ہے کہ ادارے انہیں نوکری پر رکھنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس تعلیمی ادارے پر پارٹی کی چھاپ نہیں ہے اور نہ ہی انہیں اس حوالے کچھ کہا جاتا ہے ۔ یہی بات اس کے معیار کی ضامن ہے۔
پاکستان عوامی تحریک ایک لحاظ سے مذہبی اور سیاسی پارٹی بھی ہے ۔ اگرچہ یہ پارٹی سے زیادہ ”پریشر گروپ” کے طور پر جانی جاتی ہے ، مگر اس کی منہاج یونیورسٹی مذکورہ تمام منظرنامے میں مجھے دیگر تعلیمی اداروں سے مختلف اور منفرد دکھائی دی ہے ۔ بعض اوقات مجھے یہ درسگاہ طاہر القادری کی شخصیت اور تعلیمات سے یکسر متضاد معلوم ہوتی ہے ۔ میں طاہر القادری کے نظریات اور سوچ و فکر کا ہر گز فالوور نہیں ہوں ، مجھے ان کے سیاسی طریقہ کار سے بھی شدید اختلاف ہے ، مگر یہ حقیقت ہے کہ طاہر القادری ہمارے تمام سیاستدانوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور اہل علم ہیں … میں ان کے تعلیمی اداروں پر اس تناظر میں بہت حیران ہوا ہوں کہ ان کی یونیورسٹی میں داخل ہوکر کسی طور پر بھی نہیں لگتا کہ ہم کسی خاص مسلک یا نظریے سے منسلک تعلیمی ادارے میں قدم رکھے ہوئے ہیں۔
اگرچہ وقتاً فوقتاً مختلف پروگرامات کے بہانے یہاں طاہر القادری کو بحیثیت پارٹی لیڈر مدعو کیا جاتا ہے ، مگر میں نے انہیں کبھی طلبہ و طالبات کو اپنی تحریک/ پارٹی میں شمولیت کی دعوت دیتے نہیں دیکھا ۔ یہ آزادانہ ماحول کا حامل تعلیمی ادارہ ہے جہاں طلبہ و طالبات آزادانہ رائے رکھتے ہیں اور ان کی آبیاری کرتے ہوئے سوچ اور فکر میں وسعت کی حامل نسل پیدا کی جارہی ہے۔ یہاں ہر قسم کے اذہان پائے جاتے ہیں اور کسی نجی یونیورسٹی جیسا ماحول ہے۔ طلباء پر نہ تو لباس کی کوئی قید ہے اور نہ ہی کسی اور حوالے سے کوئی پابندی یا سختی ، آپ نماز پڑھیں ، نہ پڑھیں۔ چاہے اکٹھے بیٹھیں ، یہ سب آپ پر منحصر ہے ۔ مخلوط ماحول ہے ، کلاسوں میں بھی اور عمومی طور پر بھی … کسی جانب سے نہیں لگتا کہ یہ یونیورسٹی کسی خاص مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں موجود طلبہ و طالبات کی خاصی تعداد طاہر القادری کے نظریات کی حامی بھی نہیں ہے … مگر اس سب کچھ کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہاں مادر پدر آزادی ہے۔ باقاعدہ چیک اینڈ بیلنس رکھا جاتا ہے۔
معیارِ تعلیم کی بات کی جائے تو منہاج یونیورسٹی گذشہ 32 سالوں میں ہزاروں طلبہ و طالبات کو علم کی دولت سے مالامال کر چکی ہے اور اب بھی سینکڑوں طلبہ و طالبات یہاں سے سیراب ہورہے ہیں۔ گریجویشن سے لے کر پی ایچ ڈی تک تقریباً تمام ہی فیکلٹیز سے یہاں طلبہ و طالبات مستفید ہورہے ہیں ، اور ہزاروں ہوچکے ہیں ۔ یونیورسٹی تمام جدید وسائل سے آراستہ ہے۔ اس کے تعلیمی معیار کی ضمانت بآسانی دی جا سکتی ہے۔ تحقیقی کام کے اعتبار سے بھی منہاج یونیورسٹی کا شمار معیاری تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔
اوپر ذکر کئے گئے پہلے دو تعلیمی اداروں کی توجہ چونکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ طالبعلم کی مذہبی تربیت پر زیادہ ہوتی ہے اس لئے وہ تعلیم کا مطلوبہ معیار بنانے میں کامیاب نہیں ہوپاتے … جبکہ ان کے برعکس باقی دو ادارے تربیت کی بجائے صرف تعلیم کو فوکس کئے ہوئے ہیں ، جس کی وجہ سے ان درسگاہوں میں داخلے کی ریشو بھی زیادہ ہے اور معیار بھی اہمیت کا حامل ہے۔
جب تعلیمی اداروں کی توجہ تعلیم سے زیادہ دیگر سرگرمیوں پر ہوگی ، وہ اپنا نام بنانے میں ناکام رہیں گے … ہاں ہم نصابی سرگرمیاں تعلیم کا لازمی جزو ہوتی ہیں اور طلباء کا ذہن فریش کرنے اور صلاحیتوں کا نکھارنے کیلئے ان کا انعقاد لازماً ہونا بھی چاہئے … نیز مذہبی و نظریاتی افکار و روایات اور اقدار کا خیال رکھا جانا بھی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی ترجیحات میں ضرور شامل ہونا چاہئے ، کیونکہ ہماری بنیاد اسلام ہے اور اسی کے مطابق چلنے میں ہی ہماری شناخت ہے … لیکن اس حقیقت کو بھی قبول کرنا ہوگا کہ صرف تربیت کی بنیاد پر طلباء کو اپنا فالوور یا گرویدہ بنانے سے کبھی بھی اداروں کا نام نہیں بن پاتا ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں کو سیاسی جماعتوں کے فکر و نظریات کے تابع کرنے کی بجائے آزاد ماحول دینا چاہئے۔ بلاشبہ سیاسی نظریات سے پاک درسگاہیں ہی ترقی کی ضامن ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ضمن میں منہاج جیسے ادارے ہمارے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔