انتخابات میں شکست چاہے دھاندلی سے ہو یا بغیر دھاندلی کے آسانی سے برداشت نہیں ہوتی۔سال دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں شکست کے بعد عمران خان نے بھی دھاندلی کا شور مچایا تھا۔ اس نے مخصوص حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے اپنا موقف منوانے کے لیے اسلام آباد میں دھرنے بھی دیئے۔سال دوہزاراٹھارہ کے انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کو شکست برداشت نہیں ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شکست خوردہ سیاسی جماعتیں ایک ہورہی ہیں۔اس سے پہلے جب ملک میں مسلم لیگ ق کی حکومت بنائی گئی تھی اس وقت بھی اقتدارسے محروم سیاسی پارٹیاںنواب زادہ نصراللہ خان (مرحوم) کی قیادت میں متحدہوگئیں تھیں ۔ پاکستان مسلم لیگ ن اورپاکستان پیپلزپارٹی بھی اسی سیاسی اتحادکاحصہ تھیں۔متحدہ مجلس عمل اس دورحکومت میں خیبرپختونخوا (سرحد) میں اقتدارسے لطف اندوز ہورہی تھی۔اس وقت متحدہ مجلس عمل کی قیادت مولاناالشاہ احمدنورانی رحمة اللہ علیہ کے پاس تھی۔ اس وقت ڈبل ایم اے کی قیادت مولانافضل الرحمن کے پاس ہے ۔جس وقت ایم ایم اے کی قیادت مولاناالشاہ احمدنورانی رحمة اللہ علیہ کے پاس تھی اس وقت مشرف ایم ایم اے کورام کرنے میںکامیاب نہیںہوسکا تھا۔
مولانا الشاہ احمدنورانی کی شہادت کے بعد یہی متحدہ مجلس عمل مشرف کے آگے ڈھیرہوگئی۔ہردورحکومت میں اقتدارکے مزے لینے والے مولانافضل الرحمن موجودہ انتخابات میں شکست سے دوچارہوئے توحکومت کاحصہ بننے کاامکان بھی ختم ہوگیا۔ مسلسل اقتدارمیں حصہ داررہنے والے کواس طرح شکست کاسامناکرناپڑے تواس کاردعمل ایسا ہی آناتھا جوآل پارٹیزکانفرنس کی صورت میںمولانافضل الرحمن کاآیا۔عام انتخابات کے انعقاد کے بعدستائیس جولائی سال دوہزاراٹھارہ کو ڈبل ایم اے کے سربراہ مولانافضل الرحمن کی صدارت میںمنعقدہ آل پارٹیزکانفرنس کے اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں شفاف انتخابات کرانے میںناکام رہا۔ کانفرنس میں شریک سیاسی جماعتوںکے قائدین نے اسمبلی اجلاس میں حلف نہ اٹھانے کی تجویزپیش کی جسے ن لیگ کے سربراہ شہبازشریف کے علاوہ اے پی سی میں شریک تمام سیاسی جماعتوںنے تسلیم کیاجب کہ شہبازشریف نے حلف نہ اٹھانے کے بارے میںکہا کہ پارٹی راہنمائوں سے مشاورت کے بعدردعمل دیں گے اورایک دن کی مہلت مانگ لی۔آل پارٹیزکانفرنس کے اختتام پرمیڈیاکوبریفنگ دیتے ہوئے متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانافضل الرحمان نے کہا کہ ہم انتخابای نتائج کومکمل طورپرمستردکرتے ہیں۔
یہ عوام کامینڈیٹ نہیں ۔انہوںنے کہا کہ حالیہ انتخابات میں عوام کے مینڈیٹ پرڈاکہ ڈالاگیا۔دوبارہ انتخابات کے لیے تحریک چلائیں گے۔تحریک چلانے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے گی۔فضل الرحمان نے کہا کہ ہم ملک میںجمہوریت کویرغمال نہیںبننے دیں گے اورانتخابی دھاندلی کے خلاف سڑکوںپربھرپوراحتجاج کریں گے۔دھاندلی کے تحت وجودمیں آنے والی اسمبلی کے ارکان کوایوان میں داخل نہیںہونے دیں گے۔حلف نہ اٹھانے کی تجویز سے مکمل اتفاق ہے ۔فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری جدوجہدجمہوریت کے لیے ہے۔ہم کسی کے مہرے کوحکومت نہیںکرنے دیں گے۔دیکھیں گے کہ یہ پارلیمنٹ کیسے چلاتے ہیں ۔خبرہے کہ پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کوانتخابی نتائج پرتحفظات کے باوجودپارلیمنٹ میںجانے پرراضی کر لیا ہے ۔دونوںجماعتوںکے وفودکے درمیان ہونے والی ملاقات میں ن لیگ کی جانب سے شاہدخاقان عباسی، ایازصادق اورمشاہدحسین سیّدشامل ہوئے جب کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے خورشیدشاہ ،نویدقمر،یوسف رضاگیلانی، راجہ پرویزاشرف شیری رحمان اورقمرزمان کائرہ موجودتھے۔ذرائع کے مطابق دونوںجماعتوں کے راہنمائوںنے انتخابات کے نتائج پرشدیدتحفظات کااظہارکیااورمعاملہ پارلیمنٹ میںلے جانے کافیصلہ کیا۔دونوںجماعتوںکے ارکان نے حلف نہ اٹھانے کی تجویزمستردکردی۔اس سے قبل پیپلزپارٹی کے راہنماخورشیدشاہ کاکہناتھا کہ شہبازشریف کوبتادیا کہ پیپلزپارٹی انتخابی نتائج پرتحفظات کے معاملے کوپارلیمنٹ میںلڑناچاہتی ہے۔
پی پی راہنمائوںنے جے یوآئی ف کے سربراہ مولانافضل الرحمن اورن لیگ کے راہنماایازصادق سے بھی ملاقاتیں کیں اورصورت حال پر تبادلہ کیا۔مولانافضل الرحمان نے اسمبلی میںکرداراداکرنے کے حوالے سے کہا کہ اس پرفیصلہ آل پارٹیزکانفرنس میںکریں گے۔خورشیدشاہ کاکہناتھا کہ دونوں جماعتوںکی کمیٹیاںمشترکہ طورپرایم ایم اے کی قیادت کے علاوہ اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی، محموداچکزئی اورفاروق ستارسے بھی ملاقاتیںکریں گی ۔ راہنماپیپلزپارٹی نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوںکواسمبلیوںسے حلف نہ اٹھانے فیصلہ واپس لینے پرقائل کیاجائے گا۔اسلام آبادمیں سپیکرقومی اسمبلی ایازصادق کی رہائش گاہ پرمسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی، متحدہ مجلس عمل اوراے این پی کے راہنمائوںکامشترکہ اجلاس ہوا۔جس میں شہبازشریف ، ایازصادق، خواجہ آصف، خواجہ سعدرفیق، مشاہدحسین سیّد ، عبدالقادربلوچ، شاہدْخاقان عباسی اوردیگرن لیگی راہنماشریک ہوئے۔پیپلزپارٹی کے وفدکی قیادت خورشیدشاہ نے کی ۔جس میں شیری رحمان، نویدقمر، قمرزمان کائرہ، راجہ پرویزاشرف اوریوسف رضاگیلانی شامل تھے۔جب کہ غلام احمدبلور، میاں افتخار، مولانافضل الرحمن اورمولاناانس نورانی بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اورمتحدہ مجلس عمل کے درمیان قومی اسمبلی میں گرینڈ اپوزیشن الائنس پراتفاق ہوگیا ہے۔ذرائع کاکہناہے کہ مشترکہ اجلاس میں قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے اندراورباہرسخت احتجاج اوراے پی سی طلب کرنے پراتفاق ہوا ہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ مولانافضل الرحمان نے حلف اٹھانے کے بارے میںکچھ تحفظات بھی ظاہرکیے تاہم وہ ایم ایم اے کے پارلیمنٹ میںجانے پررضامندہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مولانافضل الرحمان کے اصرارپرحکومتی نمبرگیم کوآن رکھنے پربھی اتفاق ہواہے۔جب کہ انتخابات میں دھاندلی کے بارے میں اپوزیشن میں ایک وائٹ پیپرجاری کرنے پراتفاق کیاگیا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ گرینڈاپوزیشن الائنس کے لیے بلوچستان کی جماعتوںکوبھی اعتمادمیں لینے اورشامل کرنے کی کوشش پراتفاق کیاگیا ہے۔
مشاورتی اجلا س میںمولانافضل الرحمن نے جے یوآئی کی مجلس شوریٰ میںہونے والے فیصلوں سے بھی آگاہ کیااورکہا کہ جے یوآئی کی مجلس شوریٰ نے تجویزپیش کی ہے کہ عمران خان کی چھوڑی ہوئی سیٹ پرپیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن سمیت دیگرجماعتوںسے بھی بات کرلی جائے اور متفقہ امیدوارکھڑاکیاجائے۔جے یوآئی کی مجلس شوریٰ کی رائے ہے کہ اپوزیشن کامشترکہ امیدواربرائے وزرات عظمیٰ ، سپیکروڈپٹی سپیکرلایاجائے اورحلف والے دن پارلیمنٹ کے اندراورباہربھرپوراحتجاج کیاجائے۔دوسری جانب مشترکہ اجلاس کے بعدمیڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے راہنمااورسابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے کہا کہ سال دوہزاراٹھارہ کے الیکشن دھاندلی زدہ تھے۔جن کوہم مستردکرتے ہیں۔ایسے دھاندلی زدہ الیکشن تاریخ میں کبھی نہیںہوئے اورہم ان کی مذمت اورمستردکرتے ہیں۔مشاورتی اجلاس میںفیصلہ کیاگیا کہ ہم پارلیمنٹ کے اندراورباہرحکمت عملی بنائیں گے اورمشترکہ حکمت عملی مل کرطے کریں گے۔
تمام جماعتوں سے مشاورت کے بعدپارلیمنٹ کے اندراورباہراحتجاج کریں گے۔اس موقع پرراجہ ظفرالحق نے کہا کہ الیکشن کاانعقادکراناالیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری تھی جس پروہ ناکام رہا۔ہم نے گزشتہ حکومت میں الیکشن کمیشن کومضبوط اورخودمختاربنایا لیکن الیکشن کمیشن نے ہمیںمضبوط مایوس کیا ۔ الیکشن کمیشن کے تمام ارکان اپنی ناکامی پرمستعفی ہوں ۔ہم نے فضل الرحمان سے بھی درخواست کی ہے وہ تمام سیاسی جماعتوںکے رابطوں کوبڑھائیں اوراپنالائحہ عمل ان تک پہنچائیں۔اس موقع پرمولانافضل الرحمن نے کہا کہ پوری دنیااورقوم کویہ بات نوٹ کرنی چاہیے کہ الیکشن کے خلاف جس طرح آج آوازیں اٹھ رہی ہیں تاریخ میں ایسی نہیں اٹھیں۔آج تک پوری قوم نے اس طرح متفق ہوکرانتخابات کودھاندلی زدہ قراردے کرردنہیںکیاجیسے آج کیاجارہا ہے۔الیکشن سے پہلے ہم سب ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑرہے تھے۔لیکن الیکشن سے اگلے روزہی تمام جماعتوںنے متفق ہوکرکہا کہ الیکشن میں بدترین دھاندلی ہوئی ہے ۔ ہر ووٹراپنی توہین پرسیخ پاہے۔مولانافضل الرحمان نے کہاکہ یورپی یونین مبصرگروپ نے بھی کہا کہ الیکشن میں بدترین دھاندلی کی گئی۔میڈیاپربھی پابندی لگائی ہے۔ میڈیاکوبدترین سنسرشپ کاسامناہے۔سارے ملک کے اندرالیکشن میں دھاندلی کے خلاف نعرے بازی ہورہی ہے لیکن میڈیاپرکوئی خبرنہیں آرہی۔پیپلزپارٹی کے راہنماخورشیدشاہ نے بھی میڈیاپرسنسرشپ کی مذمت کی ہے تاہم خورشیدشاہ اورمولانافضل الرحمن نے یہ نہیںبتایا کہ میڈیاپرسنسرشپ کس نے لگائی ہے ۔
مولانافضل الرحمن نے کہا کہ صحافی حضرات بھی ہم سیاست دانوں کے ساتھ مل کریہ جنگ لڑیں اوراس سنسرشپ کوختم کرائیں۔اس حوالے سے ہماری مشاورت کاعمل جاری ہے۔ہم یہ جنگ مل کرلڑیں گے۔جس کے لیے حکمت عملی بنائی جارہی ہے۔اے این پی کے غلام بلورنے کہا کہ الیکشن میںپورے پاکستان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔پاکستان کے نام پراس الیکشن میںجودھبہ لگاہے اس کودھویانہیںجاسکتا۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوںنے سپیکراورڈپٹی سپیکر کا مشترکہ امیدوارلانے کافیصلہ کرلیا۔ مرکزمیں حکومت سازی کافیصلہ آل پارٹیزکانفرنس میںہوگا۔پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن۔ اے این پی اورایم ایم اے کے راہنمائوں کے اجلاس میں فیصلہ کیاگیا ہے کہ قومی اسمبلی میں سپیکراورڈپٹی سپیکرکے لیے مشترکہ امیدوارلایاجائے گا۔مولانافضل الرحمان اورن لیگ کے راہنمادیگرسیاسی جماعتوں سے رابطے کریں گے۔اجلاس میں حکومت سازی کے لیے وزیراعظم کامشترکہ امیدوارلانے کی تجویزبھی دی گئی تاہم پیپلزپارٹی نے اس پررضامندی نہیں دی اورکہا کہ فیصلے کااختیاران کے پاس نہیں ہے۔اتحادی حکومت بنانے کی تجویزبلاول بھٹوزرداری پہلے ہی مستردکرچکے ہیں۔مشترکہ اجلاس میں شریک پیپلزپارٹی کے راہنمائوںنے کہا کہ وہ وزیراعظم کامشترکہ امیدوارلانے کی تجویزمرکزی قیادت کے سامنے رکھیں گے اورپارٹی کے فیصلے سے آگاہ کیاجائے گا۔اجلاس میں دیگرامورپراتفاق کے لیے اے پی سی بلانے کابھی فیصلہ کیاگیا۔مولانافضل الرحمن نے دھاندلی کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہرسخت احتجا ج کی تجویزپیش کی تاہم اس پرکوئی فیصلہ نہیںہوا۔اجلاس میں سراج الحق نے پارلیمنٹ سے حلف نہ لینے کی مولانافضل الرحمن کی تجویز مسترد کر دی ۔ جماعت اسلامی کے مرکزمنصورہ میں پریس کانفرنسکے دوران سراج الحق نے کہا کہ مخالفت برائے مخالفت کے قائل نہیں ۔ پورے وقارکے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھیں گے اوربھرپوراپوزیشن کاکرداراداکریں گے۔کراچی سے دیراورچترال تک انتخابی نتائج بروقت جاری نہ کیے جاسکے۔الیکشن کے پورے عملے کومشکوک بنایاگیا ۔ افسوس کہ پولنگ ایجنٹس کوباہرنکال کرووٹوںکی گنتی کاعمل شروع کیاگیا۔سراج الحق نے کہا کہ جمہوریت کی گردن پرانگوٹھارکھ کراس کی روح نکالنے کی کوشش کی گئی۔تاہم شدیدتحفظات کے باوجودنئی حکومت کوکام کرنے کاموقع دیناچاہتے ہیں۔پاکستان کومدینہ جیسی ریاست بنانے کے عمران خان کاوعدہ پوراہونے کا انتظارکریں گے۔پارلیمنٹ کے اندراورباہرجمہوریت کے استحکام کے لیے بھرپوراپوزیشن کاکرداراداکریں گے۔
سیاسی جماعتوں کوپارلیمنٹ میں جانے کے لیے قائل کرنے کااعزازپیپلزپارٹی کے پاس ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انتخابات میں تحفظات کے باوجودپیپلزپارٹی نہ صرف کسی بھی غیرجمہوری اقدام کی مخالفت کرتی ہے بلکہ غیرجمہوری اقدام اٹھانے والوں کوبھی اپنافیصلہ واپس لینے پرقائل کرلیتی ہے۔ مسلم لیگ ن نے بھی پیپلزپارٹی کاساتھ دے کرجمہوریت پسندہونے کاثبوت دیا ہے۔گرینڈاپوزیشن الائنس میں شامل سیاسی جماعتیں انتخابات کے انعقاد پر شدید تحفظات رکھتی ہیں۔ اس کے باوجودوہ پارلیمنٹ میںجانے اوراپناجمہوری کرداراداکرنے پربھی رضامندہوگئی ہیں۔مولانافضل الرحمن جو دھاندلی زدہ انتخابات جیتنے والوں کوایوانوںمیں داخل ہونے سے روکنے کااعلان کررہے تھے وہ ایم ایم اے کے پارلیمنٹ میںجانے پرراضی ہوگئے ہیں۔مولانافضل الرحمن ایم ایم اے کے پارلیمنٹ میںجانے پرتوراضی بھی ہوگئے ہیں اورکہتے ہیں کہ حلف اٹھانے نہ اٹھانے کافیصلہ اتفاق رائے سے کریں گے۔ جب گرینڈاپوزیشن الائنس اورپارلیمنٹ میں جانے پراتفاق ہوگیا ہے توحلف اٹھانے نہ اٹھانے کافیصلہ کرنے کاکیاجوازرہ جاتا ہے۔گرینڈ اپوزیشن الائنس نے پارلیمنٹ میں کردار ادا کرنے کادرست فیصلہ کیا ہے۔شدیدتحفظات کے باوجودپارلیمنٹ میںجانے کافیصلہ کرکے انتخابات کوغیراعلانیہ طورپرقبول کرنے کافیصلہ بھی کرلیاہے۔سیاسی جماعتیں حلف نہ اٹھانے کی تجویزمستردکرچکی ہیںمولانافضل الرحمن کوبھی اس سلسلہ میں حلف اٹھانے کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں کا ساتھ دینا چاہیے۔