سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائیوں نے عوام میں انتشار پیدا کردیا ہے۔ عوامی مسائل کا حل مسلسل دشوار ہوتا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے میں سست روی اور معاشی بحران کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کے سبب حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے سے قبل ہی پاکستان عرب ممالک سے اضافی قرض لے چکا۔ ادھار تیل کے معاہدے ہوچکے ہیں۔ مہنگائی عروج پر ہے لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف عوام کو بار بار یقین دہانی کرارہی ہے کہ کڑا و مشکل وقت ہے، یہ گزر جائے گا۔ عوام جانتے ہیں کہ انہوں نے ہر مشکل وقت پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارا ہے، آئی ایم ایف سے پاکستان کا یہ پہلا معاہدہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی اس کے پروگراموں پر پاکستان عمل کر چکا ہے۔ حکومت جتنی بھی سخت شرائط پر مزید قرضے لے رہی ہے، اس سے پہلے بھی جب قرضے لیے جاتے تھے تو اُس وقت بھی آئی ایم ایف کی شرائط کڑوی گولیاں ہوتی تھیں، جو عوام کو ہی نگلنا پڑتی تھیں، لیکن اس بار معاملہ نازک ترین اس لیے بن چکا کہ تحریک انصاف نے اقتدار کے حصول کے لیے عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے تھے۔ جلسوں میں جذباتی تقاریر کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا، لیکن ٹاک شوز اور انٹرویوز میں بھی تحریک انصاف نے وعدے دہرائے۔ اس سے عوام میں مغالطہ پیدا ہوگیا کہ عمران خان اپنی شخصیت کے سحر کو معیشت میں بھی آزماکر یہاں بھی کامیاب ہوجائیں گے، لیکن وزیراعظم کی شخصیت و سادگی کا سحر نہ چل سکا۔ ٹیکس وصولی کی سطح ٹارگٹ سے خلاف توقع کم ہوئی، بیرونی سرمایہ کار پاکستان آنے میں تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ہنرمند پاکستانی اپنے وطن کی ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، لیکن ان کا اعتماد ابھی تک بحال نہیں ہوسکا۔
معاشی بحران کے حل کے لیے وزیراعظم نے غیر منتخب افراد کو اہم عہدے دے دیے ہیں۔ حکومتی وزراء کے پاس اپوزیشن پر تنقید کے سوا کوئی دوسرا بیانیہ نظر نہیں آتا۔ حکومتی وزراء اپنی کارکردگی عوام کو بتانے سے قاصر ہیں۔ دوسری جانب مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف تو معاشی بحران پھن پھیلائے غریب عوام کا خون چوسنے کے لیے تیار ہے تو دوسری جانب سیاسی بحران میں بے یقینی کی کیفیت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ آئی ایم ایف سے پاکستان قرض لینے کے بعد بھی معاشی بحران سے نہیں نکل سکتا، بلکہ اس کے بعد ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے بھی مزید قرضے حاصل کیے جائیں گے۔ لازمی امر ہے کہ آئی ایم ایف کی طرح اُن کی بھی شرائط ہوں گی اور اس کا بھی براہ راست اثر عوام پر پڑے گا، یعنی مہنگائی مزید بڑھے گی۔
تحریک انصاف نے ملک کو معاشی بحران کی کیفیت سے نکالنے کے لیے جن اندازوں پر تکیہ کیا تھا، وہ بالکل برخلاف ثابت ہوئے۔ مارکیٹ میں صدارتی نظام کے حوالے سے خبریں پھیلاکر عوامی رائے جاننے کی کوشش کی گئی۔ پذیرائی نہ ہونے کے سبب صدارتی نظام کو افواہیں قرار دے کر رد کردیا گیا، جس کے بعد اب اپوزیشن نے مڈٹرم الیکشن کے لیے 2020 کو انتخابات کا سال قرار دے دیا ہے۔ اپوزیشن کا ماننا ہے کہ وزیراعظم کا اپنی پالیسیوں کی وجہ سے کلیدی عہدے غیر منتخب شخصیات کو دینے سے مالیاتی معاملات پر کنٹرول نہیں رہا۔ مالیاتی ادارے خودمختار ہوکر کرنسی، پٹرول، گیس، بجلی وغیرہ کی قیمتیں مقرر کیا کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ تو وزیراعظم کا کردار کیا رہ گیا؟ اس لیے مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مڈٹرم الیکشن ملکی مسائل کا حل ہوسکتے ہیں، کیونکہ حکومت اپنی مالیاتی پالیسی پر شکست تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ وہ اب بھی یہی کہہ رہی ہے کہ مشکل وقت ہے گزر جائے گا۔ حکومت نے کسی نہ کسی طرح دوست ممالک سے قرضے لے لیے، کچھ ارب ڈالر ریزرو اکائونٹ میں رکھوادیے۔ اس کے باوجود حکومت مزید قرض پر قرض لیے جارہی ہے، کیونکہ قرض لینا حکومت کی مجبوری ہے، اگر وہ مزید قرض نہیں لیتی تو دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہے، لیکن معاشی مسائل کا حل صرف قرض لینا ہی تو نہیں۔ حکومت اب ”میثاق معیشت” کی بات کررہی ہے۔
تاہم حکومت اور اپوزیشن تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے لچک دکھانے کو بھی تیار نہیں۔اپوزیشن جماعتوں سے حکومت کو تعاون حاصل کرنے کی ضرورت دوچند ہوجاتی ہے، کیونکہ اس سے پارلیمنٹ کا ماحول بہتر ہوسکتا ہے۔ عوامی مفاد عامہ پر مشتمل قانون سازی کرکے شور شرابے کی سیاست سے نجات مل سکے گی، تاہم حکومت کی ساری توجہ اپنی مخالف جماعت کو کھڈے لائن لگانے پر لگی ہوئی ہے۔ سابق وزیراعظم کو جیل میں بھیجنے کے باوجود وہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکے، جن کے دعوے کیے گئے تھے۔ شریف خاندان کا ہر فرد اس وقت احتساب کے نشانے پر ہے۔ پی پی پی کی قیادت کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، لیکن اس کے لیے جیل، وغیرہ کوئی نئی بات نہیں۔ اس لیے حکومتی دبائو غیر موثر ہوتا جارہا ہے۔ حکومت کی پوری کوشش رہی ہے کہ پی پی پی کی قیادت کو جیل میں ڈال دیا جائے، لیکن یہاں بھی فی الوقت کامیابی نہیں ہورہی، تاہم تصور کر بھی لیا جائے کہ اگر پی پی پی قیادت جیل چلی جاتی ہے تو کیا ملک کا معاشی بحران حل ہوجائے گا۔ یقینی طور پر ایسا نہیں ہوگا، بلکہ سیاسی عدم استحکام مزید بڑھ جائے گا، کیونکہ حکومت میں قوت برداشت کی کمی ہے۔ عوامی احتجاجوں پر حکومتی رویہ کمزورجمہوری عمارت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، جس کا انہوں نے تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔
ضروری ہے کہ این آر او دیے بغیر لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاست کو ملک میں سیاسی عدم استحکام کی کسی ممکنہ صورت حال کو آنے سے روکنا ہوگا۔ اپوزیشن کی جانب سے 2018 کے انتخابات کو انجیئرڈ الیکشن کہا گیا تھا، آر ٹی ایس پر کھل کر اعتراضات کیے گئے تھے، شاید کوئی پارلیمانی کمیٹی بھی انتخابی نتائج کی شفافیت کے حوالے سے قائم کی گئی تھی اور ایف آئی اے نے بھی تحقیقات کی تھی، لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ اس سے عوام بے خبر ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں بھی خاموش ہوگئی ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ جب سب نے موجودہ سیاسی نظام کو قبول کرلیا ہے تو اسے غیر مستحکم بنانے کی کوشش کرنا بھی مناسب نہیں، لیکن دوسری جانب دیکھا جائے تو مڈٹرم الیکشن کی سب سے پہلے بات بھی وزیراعظم نے پنجاب کی انتظامی تقسیم کے معاملے پر کی تھی۔ اگر اب اپوزیشن جماعتیں مڈٹرم الیکشن کی بات کررہی ہیں تو جواز کے لیے ان کے پاس دلیلیں موجود ہیں۔
شاید ان کے تحفظات درست بھی ہوں، لیکن ذاتی طور پر میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر مڈٹرم الیکشن ہوجاتے ہیں، لیکن آر ٹی ایس میں دوبارہ چمک آجاتی ہے، تحریک انصاف حسب توقع واضح دوتہائی سے زیادہ نشستیں جیت جاتی ہے تو پھر کیا کریں گے۔ اس موقع پر نظام کی تبدیلی یا پارلیمانی وسط مدتی انتخابات کی باتیں ملکی سیاسی و معاشی استحکام کے لیے اچھی خبر نہیں۔ اس وقت تحریک انصاف پارلیمان میں کمزور پوزیشن میں ضرور ہے۔ پارلیمان میں رہتے ہوئے اگر تبدیلی کی کوشش کی جاتی ہے تو معلق پارلیمنٹ ہی وجود میں آئے گی، اس لیے بہتر یہی ہے کہ تحریک انصاف کو موقع دیا جائے۔ حکومتی ٹرین کو درست راستے پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہے۔ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے وزیراعظم کو ایک قدم پیچھے لینا ہوگا۔ کرپشن پر مفاہمت نہ کریں، لیکن نظام پر اتفاق رائے لانا ہوگا۔ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اب چٹکی بجانا ختم کردیں۔ بصورت دیگر ہم سو برس اور پیچھے چلے جائیں گے۔