تحریر : پیر توقیر رمضان سیاسی پارٹیوں کو کامیاب کرنا اور سیاسی جماعت کے متعلق عوام میں آگاہی پیدا کرنا ایک پارٹی کے عام ورکر کاکام ہوتا ہے جس کو عام الفاظ میں سیاسی کارکن کہا جاتا ہے یہ کارکن اپنے جماعت کو فعال بنانے اور اس کے متعلق عوام میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کیلئے اپنی کوشش کرتا ہے مگر آج کسی سیاسی پارٹی میں اس ورکر کو عزت نہیں مل رہی وہ ورکر کو صرف اور صرف زلالت ملتی ہے وہ اپنی جماعت کی تنظیم سازی کر مکمل کرنے کے چکروں میں دکھے کھاتا ہے مگر آج تک کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ایک سیاسی ورکر کو عزت دینے کی بات نہیں کی گئی، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک سیاسی ورکر کو عزت کون دے گا،سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ووٹ کو عزت دینے کی بات تو کر دی مگر آج کو ورکر کو عزت دینے کی بات ان کے منہ سے نہ سن سکے ، کسی سیاسی پارٹی کاقائد یا سربراہ نے آج تک اپنی پارٹی کے کارکنان سے ان کا حال نہیں پوچھا کوئی لیڈر کسی ورکر کی خوشی یا غمی میں شریک نہ ہوسکا، لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی پارٹی ورکر کے ساتھ ساتھ اپنی ووٹرز اور عوام کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہو ، مگر پاکستان میں مسلط جمہوریت میں سب کچھ حقیقت سے برعکس ہے۔
ہمیشہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی کامیابی کے پیچھے اس کے ورکرز اور کارکنان کا فعال کردار چھپا ہوتا ہے ، نوجوان ورکرز پارٹیوں کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں مگر بدقسمتی میں پاکستان میں موجود کسی سیاسی پارٹی میں آج تک اپنے ورکر کو عزت دینے کی بات نہیں کی گئی۔مسلم لیگ (ن) کے ورکرز ہو ں یا تحریک انصاف کے مگر جب تک وہ پارٹی اپنے ورکر کو عزت نہ دے گی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی ، لیڈر اور حکمران بننے کے خواب دیکھنے سے قبل بڑی سوچ رکھنا ضروری ہے ،مگر ہمارے لیڈران اور سیاسی جماعتوں کے قائد کو یہ توفیق حاصل نہیں ہوتی ہے کہ وہ کبھی اپنے کارکنان کی خوشی یا غمی میں شریک ہوں بلکہ بعض مقامات پر ایسے مواقع دیکھنے کو ملے کہ سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں کی خوشیوں یا غمیوں میں کوئی مرکزی عہدیدار یا قائد نہیں پوچھتا ہے وہاں بھی اس عہدیدار کے اپنے ورکر اور اپنے ہی کارکنان اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ وقت کب تک ایسے رہے گا۔
جب تک ہم خود سسٹم کو نہیں بدلیں گے اس وقت تک یہ سسٹم نہیں بدل سکتا ، اورسسٹم کو بدلنے کیلئے بڑی سوچ ہونی چاہیے ، چھوٹی سوچ کے مالک خود کو سیاسی قائد سمجھ بیٹھے ہیں، پاکستان پر مسلط جمہوریت میں کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جو حقیقی معنوں میں ہی لیڈر ہو ۔لیڈروہ ہوتا ہے جس کے لئے سب برابر ہوں جو ہر کسی کی خوشی اور غمی میں خود پہنچے نہ کہ چند چمچوں کو بھیج کو ضرورت پوری کرے۔پاکستان میں آج بھی نیشنل لیول کی بڑی سیاسی جماعتوں کی کوئی خاص قدر نہ ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ ان میں ورکرز کو عزت دینے کا کوئی تصور تک نہ ہے ،سیاسی جماعتوں میں ورکر کو عزت دینے کا لفظ ہی نیا اور مختلف ہے ، جس سے وہ واقف نہیں ہے۔
جب انتھک محنت اور جدوجہد کے باوجود ایک جماعت کے ورکر کو عزت نہ ملے ،پارٹی کے متعلق عوام میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کے باوجود ورکر کو اسکی ہی پارٹی کے جلسے میں دھکے ملیں تو وہ بیچارہ کیسے مزید ایسے سسٹم میں رہ سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کے قائد ہوش کے ناخن لیں اور اپنی جماعت کے ورکر اور کارکنان کو عزت دینے کیلئے باقاعدہ طور پر ایک لائحہ عمل جاری کریں اور ہر ضلعی،تحصیل سطح کے صدر کو ہدایت نامہ جاری کیا جائے کہ وہ پارٹی کے کارکنان کو پارٹی کے صدور سے بڑھ کر عزت دیں تا کہ ایک سیاسی ورکر بھی عزت کے ساتھ خوشحال زندگی بسرکرنے میں کامیاب ہو سکے۔