تحریر : احمد نثار ناجانے کس کس کا غرور ٹوٹا نا جانے کس کس کے اندازے ملیامیٹ ہوئے نہ جانے کس کس کا سیاسی تکبر کا گھڑا سرِ بازار چور ہوا مگر زعفرانی طاقت ان کے سروں پر ناچتی ہوئی ابھر کر سامنے آئی۔ ملائم سنگھ کی چال بے حال ہوئی، بیٹے سے ناراز ہوکر ٹوٹ بکھرنے اور کانگریس کے ساتھ مل کر روڈ میپ کا ماسٹر پلان آخر کار پلاسٹر پلان ثابت ہوا۔ لنگڑتی کانگریس کا سپا کی لاٹھی کا سہارا ٹوٹ گیا اور کانگریس کا منہ سَپاٹ ہوگیا۔ مایا وتی کا دلت کارڈ لاچار و لاغر ثابت ہوا۔ ہوسکتا ہے مایاوتی کا ہاتھی اس بات کا رونا شروع کرے گا کہ اس پر زیادہ تر مسلمان سوار تھے اور ان کا بوجھ نہ اٹھا سکا، یا پھر مسلمانوں نے ووٹ نہیں دیا راشٹریہ علماء کونسل کا سر پہلے ہی سے کم بال والا تھا، اس ایلکشن سے پورا گنجا ہوگیا۔
اویسی برادر کی للکار کو عوام نے خوب انجوائے کیا جو لوگ بی جے پی اور آر یس یس کو کھلے طور پر گالیاں نہیں دے سکتے تھے وہ اویسی تقاریر سے خوب محضوظ ہوئے اور یوں محسوس کیا کہ ان کے دل کے سارے داغ اویسی تقاریر کی پھنوار سے دھل گئے۔ ان سب باتوں کے پیچھے دبے ان احمقانہ حرکتوں کو بی جے پی نے خوب سمجھا کسی پارٹی کو سمشان پہنچایا تو کسی کو قبرستان بجلی عید دیوالی کو ہو نہ ہو مگر ہولی کھیلنے رنگ ضرور جمع کرلیا۔ بے چارے دلت اور مسلمان اوٹروں کو مایاوتی کا ہاتھی اور اویسی کی پتنگ ڈگڈگی بجا کر مداری کا کام ضرور کیا، اور ووٹروں کو خوب سا نچایا۔۔۔۔۔۔۔
اس دوران بی جے پی کی بلی ساری روٹی کھاگئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مایاوتی، ملائم سنگھ، اکھلیش، کانگریس، اجیت سنگھ، اویسی، مولانا، برنی، و دیگر چھوٹے موٹے لیڈران بی جے پی کے ہولی کی پچکاریوں سے خود کو بچا پائیں گے یا اس پچکاریوں کے ضد میں دم توڑ دیں گے۔ ہاتھی، سائکل، ہاتھ، پتنگ و دیگر پارٹیوں کو دور دور تک کوئی ٹمٹماتا چراغ نظر نہیں آرہا ۔۔۔۔۔ ایسی صورت میں ان پارٹیوں کا کیا رد عمل رہے گا کیا اپنی انا کے گھڑے کو پھوڑ کر ایک چشمے میں سمو پائیں گے؟ اگر نہیں تو یہی بچیں گے۔۔۔ لنگڑا ہاتھی، ٹوٹی سائکل، بینڈ یج والا ہاتھ، کٹی پتنگ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔