تحریر : مقدس فاروق اعوان پاکستان میں جب سے جلسے جلوسوں کا رحجان بڑھتا دکھائی دیا ہے۔ تب سے پاکستانی عوام بھی ان جلسوں میں شرکت کرنے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ سیاست میں بڑھتی دلچسپی نے عوام کو جنونی کر دیا ہے۔اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سیاست میں بڑھتی ہوئی دلچسپی جنون میں بدلتی جا رہی ہے۔ جب بھی کوئی سیاسی پارٹی اپنا جلسہ سجاتی ہے تو ان کے چاہنے والے ایک بڑی تعداد میں امڈ آتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے جلسے جلوسوں کا تو رنگ ڈھنگ ہی بدل گیا۔ جلسوں میں پارٹی کے پرچم لہرا رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ عوام کا خون گرمانے کے لیے پارٹی نغمے بھی لگائے جاتے ہیں۔ جو عوام کا جوش و جذبہ بڑھانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اور عوام بھی اپنی پسندیدہ پارٹی کے نغموں پہ جھومتی نظر آتی ہے۔
یوں تو عوام کی سیاست میں بڑھتی ہوئی دلچسپی قابل تعریف ہے مگر اب اس کی وجہ سے کافی فسادات دیکھنے کو ملتے ہیں۔سیا سی مخالفین ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے کی کوشش میں بہت کچھ کر گزرتے ہیں۔بعض اوقات تو یہ لڑائی جکھڑے خون خرابے میں بدلتے نظر آتے ہیں۔چاہے کسی بھی سیاسی پارٹی کا جلسہ ہو۔وہاں عوام کی ایک بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان جلسوں میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔جو خواتین کی سیاست کے ساتھ بڑھتی ہوئی دلچسپی کا واضح ثبوت ہے۔مردوں کی نسبت خواتین میں یہ جوش و جزبہ زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اور وہ اپنے سیاسی پارٹی سے محبت کے اظہار کے لیے مختلف طریقے اپناتی ہیں۔کچھ پارٹی پرچم کے رنگوں جیسا لباس زیب تن کیے ہوتی ہیں ۔تو کچھ ان رنگوں میں رنگی نظر آ تی ہیں۔
Political Rally
جلسے چونکہ مرد اور خواتین کے مشترکہ ہوتے ہیں۔اس لیے ہمیں ان جلوسوں میں کئی بار خواتین کے ساتھ بدتمیزی دیکھنے کو ملتی ہے۔اس بد تمیزی کا شکار جلسے میں شرکت کرنے والی خواتین کے ساتھ ساتھ میڈیا کی خواتین بھی ہوتی ہیں۔جو کہ انتہائی افسوس ناک بات ہے۔چاہے کوئی بھی جلسہ ہو وہاں پہ خواتین کے ساتھ بد تمیزی قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔
ان جلوسوں میں میڈیا سے آئی خواتین نمائیند گان کے ساتھ بھی اکژ نا مناسب سلوک دیکھنے کو ملتا ہے۔جو صرف اور صرف اپنا فرض پورا کرنے کے لیے وہاں موجود ہوتی ہیں۔اور عوام تک تمام صورتحال پہنچانے کے لیے موجود ہوتی ہیں۔ایسے میں ان کے ساتھ اور وہاں آئی باقی خواتین کے ساتھ بدتمیزی کر کے ہم دنیا کے سامنے پاکستان کا جو چہرہ دکھارہے ہوتے ہیں وہ انتہائی قابل افسوس ہے۔اور باعث شرمندگی ہے۔
جلسے منعقد کرتے وقت اولین ترجیح جلسے کو کامیاب بنانا ہوتی ہے۔ان جلسوں میں دور دور سے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کرتے ہیں۔سردی گرمی اور بھوک پیاس کی پرواہ کیے بغیر تمام لوگووں کا جوش و جزبہ قابل دید ہوتا ہے۔ایسے میں کچھ لوگوں کا نا مناسب رویہ جلسے کو ناکام بنانے یا اس کے نام کو بگاڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
Women in Rally
کوئی بھی جلسہ منعقد کرنا ہو تو اس میں ایسے انتظامات کا ہونا بہت ضروری ہے جن میں خواتین اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں۔ان جلسوں کے لیے مناسب حکمت عملی بہت ضروری ہے۔اس کا بہترین حل تو یہ کہ مرد اور خواتین کے لیے الگ الگ انتظامات کیے جا سکیں۔
گزشتہ روز کیے گئے پی ٹی آئی کے جلسے میں ہمیں شدید بد نظمی دیکھنے کو ملی۔جس میں خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔اور تین بچے اپنے والدین سے بچھڑ گئے۔جنھیں پولیس نے اپنے تحویل میں تو لے لیا مگر یہ بات والدین کے لیے نہایت پریشان کن ہو گی۔اس دوران پولیس نے وہاں موجود لوگوں پہ لاٹھی چارج بھی کیا۔جس سے حالات مزید خراب ہو گئے۔
اس لیے آئیندہ ان حالات سے بچاؤ کا واحد حل یہ ہے کہ جلسے منقعد کرنے سے پہلے مناسب اور مکمل طور پہ ایسی منصوبہ بندی کی جائے جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو اور کوئی گڑ پڑ دیکھنے کو نہ ملے۔اس کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی رہنماؤں کے لیے اپنے کارکنوں کی تربیت کرنا بھی بہت ضروری ہے۔اس لیے آئیندہ جلسے کی انتظامیہ ان باتوں پہ لازمی غور کرے۔ورنہ یہی حالات رہے تو جلسے خواتین کے لیے غیر محفوظ ہو جائیں گے۔