تحریر : محمد اشفاق راجا سیاسی اور عسکری قیادتوں نے دہشت گردوں کے ساتھ پوری قوت سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔وزیراعظم محمد نوازشریف نے گزشتہ روز نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے طلب کئے گئے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں دہشت گردوں کا ہر صورت خاتمہ یقینی بنایا جائیگا اور آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک جنگ جاری رہے گی۔ انہوں نے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے سکیورٹی کے وفاقی اور صوبائی اداروں میں کوآرڈی نیشن مزید بہتر بنانے کی ہدایت کی’ اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف’ ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر’ وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان’ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور دیگر اعلیٰ حکام شریک تھے جس میں ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بعض اہم فیصلے کئے گئے جن کا بعدازاں چودھری نثارعلی خان نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران اعلان کیا۔ اجلاس میں کوئٹہ دھماکے کے بعد تحقیقاتی عمل میں ملنے والے شواہد اور بیرونی ہاتھ ملوث ہونے سے متعلق معاملات پر مفصل غور کیا گیا۔
اجلاس میں ملک بھر میں کومبنگ اپریشن مزید تیز کرنے اور صوبائی ایپکس کمیٹی کو مزید فعال بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد اور دہشت گردی کے خاتمہ سے متعلق قوانین مزید سخت کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اجلاس کے فیصلہ کے تحت سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس اداروں کو مزید اختیارات دیئے جائینگے جس کے تحت سکیورٹی فورسز ملک بھر میں کہیں بھی بغیراجازت کے چھاپے مار سکیں گی۔ اجلاس میں تحفظ پاکستان بل میں مزید توسیع اور ترامیم کا فیصلہ بھی کیا گیا جبکہ ملک بھر کے مدارس کی رجسٹریشن اور انکی اصلاحات کا بھی فیصلہ کیا گیا جس کیلئے علماء کرام کو اعتماد میں لیا جائیگا۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاڑ کرنے کیلئے ہمارا دشمن سرگرم ہے اور سانحہ? کوئٹہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ ہم اس بارے میں دشمن کے ناپاک عزائم ناکام بنا دینگے۔
دہشت گردوں کی جانب سے 8 اگست کو کوئٹہ ہائیکورٹ بار کے صدر کی ٹارگٹ کلنگ اور اسکے بعد سول ہسپتال کوئٹہ میں خودکش حملے کی صورت میں کی گئی سفاکانہ اور بزدلانہ دہشت گردی پر قوم ابھی تک سکتے کی کیفیت میں ہے اور یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے حکومتی اور عسکری قیادتوں کے بلند بانگ دعوئوں اور اپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کی تفصیلات آئے روز میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے رکھنے کے باوجود دہشت گردی کا عفریت ابھی تک کیوں پھنکارے مارتا بے گناہ انسانوں کو ڈستا چلا جارہا ہے۔ دو سال قبل آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد تمام حکومتی’ سیاسی’ عسکری قیادتوں نے یکسو ہو کر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان طے کیا تھا جس کے تحت وہ سارے اقدامات اٹھانے کے فیصلے کئے گئے جو اب گزشتہ روز کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اٹھائے جانے کا فیصلہ بھی ہوا ہے۔
Pak Army
اس سے بادی النظر میں یہی ثابت ہوتا ہے کہ دو سال قبل طے کیا گیا نیشنل ایکشن پلان کاغذوں میں ہی دبا پڑا رہا ہے اور اسکی کسی ایک شق پر بھی اسکی روح کے مطابق عملدرآمد نہیں ہوا۔ اگر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا گیا ہوتا تو اسکے بعد گلشن پارک لاہور کا سانحہ رونما نہ ہوتا جس میں مسیحیوں کے مذہبی تہوار ایسٹر کے موقع پر انکی خوشیاں چھیننے کیلئے پچاس سے زائد بے گناہوں بشمول خواتین اور بچوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اس سانحہ کے بعد تو نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جانی چاہیے تھی مگر اسکے بعد بھی ملک میں دہشت گردی کا تسلسل برقرار رہا اور پھر نوبت 8 اگست کے سانحہ? کوئٹہ تک آپہنچی جس میں ملک کی کریم وکلائ’ صحافی’ پولیس اور دوسرے سرکاری حکام کو نشانہ بنا کر 80 کے قریب بے گناہوں کو شہید اور تقریباً اتنے ہی افراد کو زخمی کرکے خون میں نہلا دیا گیا۔ اس سانحہ کے بعد سول اور عسکری قیادتیں پھر یہ دعوے کرتی نظر آرہی ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کو عملی جامہ پہنا کر دہشت گردوں کا ہر صورت خاتمہ یقینی بنایا جائیگا اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھی جائیگی۔ اس سے تو یہی مراد ہے کہ سفاک دہشت گردوں کی جانب سے اے پی ایس سانحہ کے ذریعے قوم کو شدید جھٹکے لگانے اور حکومتی ریاستی اتھارٹی کے علاوہ عسکری اداروں کی فعالیت چیلنج کرنے کے باوجود سیاسی’ حکومتی اور عسکری قیادتیں محض زبانی جمع خرچ سے ہی کام لیتی رہی ہیں اور اب سانحہ کوئٹہ کے بعد تو اپریشن ضرب عضب کی ناکامی بھی عیاں ہونے لگی ہے۔
شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے ذمہ دار حکمرانوں اور سکیورٹی اداروں کیلئے کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے سے متعلق انکے بیانات کے باوجود دہشت گرد اسی طرح سرگرم عمل ہیں اور انہوں نے سانحہ کوئٹہ کے دو روز بعد باجوڑ ایجنسی میں ریموٹ کنٹرول بم حملہ کرکے دو فوجی جوانوں کو شہید کردیا ہے۔ اگر دہشت گرد حکومتی’ عسکری قیادتوں کے دعوئوں کا اسی طرح جواب دیتے رہے تو کوئی بعید نہیں کہ ہم اپنی بے تدبیریوں اور باہمی چپقلشوں کا باعث بننے والی اختیارات کی جنگ کی بنیاد پر اپنے آخری شہری کو بھی دہشت گردوں کے عزائم کی بھینٹ چڑھا دینگے جس کے بعد آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کی جنگ شاید قبرستان کے اندر ہی لڑی جائیگی۔
اس صورتحال میں قوم کو مزید دعوئوں کی نہیں’ ذمہ داروں کی جانب سے جوابدہی کی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے عملی اقدامات اٹھائے جاتے دکھانے کی ضرورت ہے۔ اگر آج یہ فیصلہ کیا جارہا ہے کہ ملک بھر میں کومبنگ اپریشن تیز کیا جائیگا اور نیشنل ایکشن پلان کو اڑھائی ماہ کے اندر اندر نتیجہ خیز بنایا جائیگا تو اس سے یہی مراد ہے کہ اب تک اس بارے میں کوئی قدم اٹھایا ہی نہیں گیا۔ اس تناظر میں اگر حکومتی اتحادیوں میں سے مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی قومی اسمبلی کے فورم پر درد دل کے ساتھ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے احتساب کا تقاضا کررہے ہیں اور ”دوشریفوں” کے الگ الگ کوئٹہ جانے کے حوالے سے پیدا ہونیوالے غلط تاثر کی نشاندہی کررہے ہیں تو وہ فی الواقع جاندار اپوزیشن کا کردار ادا کررہے ہیں جو بے عمل حکمرانوں کی اصلاح احوال کیلئے اس وقت ضروری ہے۔
Quetta Hospital Blast
آج اگر کورکمانڈرز میٹنگ میں سانحہ کوئٹہ کا جائزہ لیتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا جائیگا کہ سکیورٹی فورسز کے اپریشن ضرب عضب کو ناکام بنانے کیلئے عدلیہ کو نشانہ بنایا گیا ہے اور وزیراعظم نوازشریف سانحہ کوئٹہ کو اقتصادی راہداری منصوبہ کو سبوتاڑ کرنے کی سازش قرار دینگے تو کیا اس سے ان بدنصیب گھرانوں کے زخم مندمل ہو جائینگے جنہوں نے سانحہ کوئٹہ میں شہید ہونیوالے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا کر خود دفنائی ہیں۔ اگر قوم کے ذہنوں میں سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے یہ سوالات ابھر رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر حکومتی اور عسکری قیادتوں کے ایک صفحہ پر نہ ہونے کے باعث اسے عملی جامہ پہنانے کی اب تک نوبت ہی نہیں آئی’ نتیجتاً انسانیت کے دشمن دہشت گرد اسی طرح دندناتے پھر رہے ہیں تو کیا اب پہلے تمام ذمہ داران کو جوابدہی کے کٹہرے میں نہیں آنا چاہیے اور اس جوابدہی کا آغاز ایجنسیوں کے کردار کے حوالے سے محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی بنیاد پر نہیں کیا جانا چاہیے؟۔
اگر ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں ملک میں پھیلے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے منصوبوں’ ٹارگٹس اور انکے پیچھے کارفرما ہاتھوں کے محرکات کا ہی اب تک کھوج نہیں لگا سکیں تو نیشنل ایکشن پلان کے تحت انہیں نکیل ڈالنے کی منصوبہ بندی کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔ بدھ کی شام وزیراعظم نوازشریف نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران سانحہ کوئٹہ میں ملوث دہشت گردوں کا کھرا نکالتے ہوئے انہیں وہی دہشت گرد قرار دیا جنہوں نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو شہید کیا’ کوئٹہ کے ہزارہ قبیلے کے ساتھ بربریت کی اور آرمی پبلک سکول پشاور میں بے گناہ بچوں اور اساتذہ کو سفاکانہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا اور گلشن اقبال پارک لاہور میں ایسٹر کے روز خوشیاں مناتے بچوں اور خواتین کو خون میں نہلایا۔ اگر یہ وہی دہشت گرد ہیں تو آج تک دندناتے کیوں پھر رہے ہیں اور انسانی خون سے ہولی کھیلنے کے اپنے متعینہ اہداف آسانی کے ساتھ پورے کیوں کررہے ہیں۔ قوم اس صورتحال پر بلاشبہ دل گرفتہ اور زخموں سے چورچور ہے۔
دہشت گردی کی جنگ میں قوم کے علاوہ ہماری سکیورٹی فورسز نے بھی بلاشبہ بے بہا قربانیاں دی ہیں اس لئے ان قربانیوں کو ضائع نہیں جانے دینا چاہیے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشیدشاہ اور پی ٹی آئی کے مخدوم شاہ محمود قریشی نے دہشت گردی کے تدارک کے موثر اقدامات اٹھانے کیلئے پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی تشکیل دینے کا تقاضا کیا ہے۔ بے شک یہ کام بھی کرلیا جائے مگر اب خالی خولی نعروں اور زبانی جمع خرچ سے قوم کو مزید مایوس نہ کیا جائے۔ آج ضرورت ایک عزم کے ساتھ ٹھوس قدم اٹھانے اور نیشنل ایکشن پلان کو پوری فعالیت کے ساتھ عملی جامہ پہنانے کی ہے۔ اب محض گفتند’ نشستند’ برخاستند سے کام نہیں چلے گا۔