زندہ جلائے جانے والے مسیحی جوڑے کے لواحقین نے انکشاف کیا ہے کہ شہزاد مسیح کی بیوی چار ماہ کی حاملہ تھی شہزاد اور اس کی بیوی شمع کو روئی میں لپیٹ کر بھٹی میں پھینکا گیا تاکہ روئی جلدی آگ پکڑ سکے۔ شہزاد مسیح کے رشتہ دار جاوید مسیح کا غیر ملکی جریدے کو ٹیلی فونک انٹر ویو میں کہنا تھا کہ 27 سالہ شہزاد اور 24 سالہ شمع بی بی پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے قرآن پاک کی توہین کی اور مقدس اوراق کو جلایا تو 12 سو افراد نے ا ن پر حملہ کیا تھا۔ حملہ آوروں نے سب سے پہلے ان کی ٹانگیں توڑی گئی ۔۔
تھیں تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں پھر مشتعل ہجوم نے ان دونوں کو ہاتھوں اور پائوں سے پکڑ کر اینٹوں کی بھٹی میں اس وقت تک رکھا جب تک انکے کپڑوں کو آگ نہیں لگی تھی۔ جاوید مسیح کے مطابق اسکی ہڈیاں ابھی تک مل رہی ہیں اور انہیں اکٹھی کرکے دفنایا گیا ہے۔ شہزاد مسیح کے بھائی کے مطابق یہ معاملہ ابھی تک مشکوک ہے کہ انہوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تھی کہ نہیں تاہم انسانی حقوق کے رکن اور وکیل مشتاق گل کے مطابق مقدس اوراق شہزاد مسیحی کے محروم والد کے پاس تھے اور شہزاد کے والد کا سامان شہزاد کی بیوی نے جلایا تھاجو کہ ان پڑھ تھی اور اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ (نعوذ باللہ )قرآن مجید کو جلا رہی ہے۔ہم اس واقعہ پر جتنا بھی افسوس کریں کم ہے
اس واقعہ سے پاکستان کی بدنامی پوری دنیا میں ہوئی ۔اگر شوشل میڈیا پر آپ دیکھیں تو علم ہو گا اس واقعہ کے بعد اسلام کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ اسلام کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں جن کو برداشت کرنا کسی بھی مسلمان کے لیے ناممکن ہے ۔ایسی باتیں یہ کافر، ہندو، ملحد، قادیانی، یہودی ،وغیرہ اس واقعہ کا سہارا لے کر کر رہے ہیں ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جیتے جاگتے انسانوں کو زندہ جلانا مذہب کے نام پر دہشت گردی کی ایک اور شکل ہے، جس کی اجازت کوئی بھی انسانی معاشرہ نہیں دے سکتا اور نہ ہی اس کی اجازت دین اسلام دیتا ہے ۔ بدقسمتی سے معاشرے میں عدم برداشت کے رویوں کے جنم لینے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے نبی کریم ۖ کی تعلیمات کو فراموش کر دیا ہے اور ہمارے نام نہاد علماء کی تقریروں کو ہی اسلام سمجھ لیا گیا ہے۔
جس نے بھی اس جوڑے پر الزام لگایا اس کے بعد مسجد میں اعلان ہوا اور کسی نے تحقیق کرنے کی ضرورت نہ سمجھی اور سینکڑوں افراد نے ان کے گھر کا گھیراو کر لیا جس پرشمع اور اس کے خاوند نے خود کو ایک کمرے میں بند کر لیا لیکن مشتعل ہجوم نے ان کو وہاں سے نکال کر خوب مارا پیٹا اور آخر زندہ جلا دیا ۔کسی نے بھی نہ ہی اس مسجد کے مولوی نے یہ ضرورت محسوس کی کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک کی سورة حجرات کی آیت نمبر 6 میں فرمایا ہے کہ ۔ مومنوں اگر کوئی فاسق تمارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (مبادا) کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو اور (پھر) اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے ۔اگر اس واقعہ میں قرآن کے اس فرمان پر عمل ہو جاتا ، اگر ایسا کر لیا جاتا تو یہ واقعہ شائد پیش نہ آتا ۔اس واقعہ سے ہم کو سبق سیکھنا چاہیے
Islam
آئندہ ایسے واقعے نہ ہوں اس کی روک تھام کے لیے دین اسلام کی درست تعلیمات کا عوام کو شعور دیا جائے اور اس کا بھی کہ کسی کو سزا دینا حکومت اور عدلیہ کا کام ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے جو قوم ایسے واقعات سے سبق نہیں سیکھتی ان کو تاریخ سبق سکھا دیتی ہے ۔ہمیں معاشرے میں تحمل اور برداشت کے جذبات کو فروغ دینا ہوگا۔مستقبل میں ایسے ہولناک واقعات کے سدباب کیلئے معاشرے کے ہر طبقے کو آگے بڑھ کر اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا اس کا سارا الزام حکومت پر ڈال دینا بھی درست نہیں ہے ۔ تمام مسلمانوں کو اپنے کردار وعمل سے اسلام کی اعلی تعلیمات کو عملی نمونہ سے ثابت کرنا ہو گا تاکہ دنیا ہمارے دین کے روشن اور صاف عمل کا تاثر دیکھیں اور انہیں معلوم ہو کہ اسلام انسانی جان ومال کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔
اس حوالے سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف کاروائیاں انتہائی افسوسناک ہیں جو اسلام کی نفی ہیں۔انہیں جان لینا چاہیے کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلم افراد کی جان ومال کی حفاظت اتنی ہی مقدم ہے جتنی ایک مسلمان کی۔اس حوالے سے علماء کرام کو بھی چاہیے کہ وہ لوگوں کو مذہبی اقلیتوں کی حفاظت کے حوالے سے بتائیں اور انہیں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں وگرنہ دنیا ہمیں وحشی ومتشدد سمجھے گی۔ اقلیتوں کا تحفظ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے سب علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کی اعلی تعلیمات پر عمل کرکے دین اسلام امن کا دین ہے کا پیغام دیں۔اسلام کا مطلب ہی سلامتی ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن کے نواحی گاؤں میں زندہ جلائے جانے والے میاں بیوی کے گھر گئے اورمظلوم خاندان سے دلخراش واقعہ پر گہرے دکھ اور افسوس کااظہارکیا ۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ آپ کو ہر صورت انصاف فراہم کیا جائیگااورانصاف ہوتا ہوا بھی نظر آئے گا۔وزیراعلیٰ نے زندہ جلائے جانے والے مسیحی جوڑے کے تینوں بچوں کیلئے 50 لاکھ روپے مالی امداد اور انہیں 10 ایکڑ اراضی دینے کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ جیتے جاگتے انسانوں کو زندہ جلانا کہاں کا اسلام ہے۔نبی پاکۖ نے امت کو تحمل ،برداشت،بردباری اورامن کا درس دیا ہے اور ہمارے پیارے نبیۖ کی پوری زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔انہوں علمائے کرام سے اپیل کی کہ وہ اپنے پیرو کاروں کی رہنمائی کریں اورانہیں اسلام کی حقیقی روح سے آگاہ کریں کیونکہ اسلام کی بنیاد امن اورآتشی پر ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی، معاشرتی اور مذہبی قوتیں مل کر ایک آئیڈل سوسائٹی کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں