پاکستان میں ہر سانحہ کے بعد الفاظ کی ایک نئی جنگ شروع ہو جاتی ہے جس سے عالمی میڈیا پر بھی بحث شروع ہو جاتی ہے کہ پاکستانی سیاستدان مسلسل اس سوال پر پاکستانی عوام کو مایوس کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ان کی باہم لڑائی پاکستانی عوام میں مایوسی اور انتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہی ہے۔
ایسے میں بجا طور پر یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس لب و لہجہ اور نقطہ نظر کے حامل پاکستانی سیاستدان کس طرح قوم کی ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہیں۔ گزشتہ روز بنوں میں سکیورٹی فورسز پر المناک حملہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ دہشت گرد ایک بار پھر قوت پکڑتے نظر آ رہے ہیں۔
تاہم حکومت کے نمائندے اور اپوزیشن یکساں طور سے اس سوال پر پوری شدت سے سیاست کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ایک پاکستان کا قومی اہمیت کا مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے قومی یکجہتی بے حد ضروری ہے۔
موجودہ سیاسی صورت حال میں سیاسی پارٹیوں اور حکومت کے درمیان ہم آہنگی، اتفاق رائے، تعاون اور مل جل کر اس قومی المیے سے نجات حاصل کرنے کے لئے اقدامات کرنے کی بجائے سیاستدان بیان بازی اور الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ اب ملک کے وزیر داخلہ نے یہ قرار دیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کنجی حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اگر فریق ثانی بات چیت پر آمادہ نہیں ہے تو حکومت آخر کیا کر سکتی ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے دور وز قبل ایک خصوصی پریس بریفنگ میں یہ اعلان کیا تھا کہ طالبان کے متعدد گروہوں کے ساتھ رابطے قائم ہو چکے ہیں۔ بعض اہم علمائے دین بھی اس معاملہ میں مددگار ہیں اور حکومت کوشش کر رہی ہے کہ طالبان کے سب گروہوں کے ساتھ رابطہ کر کے موجودہ صورت حال کا کوئی مناسب حل تلاش کر لیا جائے۔
اس دوران یہ خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اگرچہ مولوی فضل اللہ کو طالبان کا امیر مقرر کر لیا گیا ہے اور طالبان نے بظاہر اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اس کے مختلف گروہوں کے درمیان اختلافات نمایاں ہیں۔
ایک طرف مولوی فضل اللہ انتہاپسندانہ اور تصادم کی حکمت عملی اختیار کرنے کی بات کرتا ہے جبکہ طالبان میں شامل متعدد قبائل اور گروہوں کو فضل اللہ کی حکمت عملی اور طریقہ کار سے شدید اختلافات ہیں۔
طالبان جیسی تحریک میں یہ انتشار حکومت پاکستان کے لئے مذاکرات کے حوالے سے خاصا سودمند ہو سکتا تھا۔ سال رواں کے اندر امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائیں گی جس کے بعد سکیورٹی کے حوالے سے پاک افغان سرحد پر ایک نئی صورت حال جنم لے گی۔ افغانستان میں ممکنہ طور پر جو سیاسی تبدیلیاں رونما ہوں گی ان میں افغان طالبان کی ترجیحات اور ضروریات تحریک طالبان پاکستان کی حکمت عملی سے مختلف ہوں گی۔ اگرچہ تحریک طالبان پاکستان کا کبھی بھی براہ راست افغان طالبان سے رابطہ نہیں رہا ہے لیکن کسی نہ کسی سطح پر یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے دست و بازو بنتے رہے ہیں۔
نئی صورت حال میں افغان طالبان کے لئے ایسے گروہوں کے ساتھ کسی قسم کا تعاون ممکن نہیں ہو گا جو براہ راست افواج پاکستان کو چیلنج کر رہی ہوں۔نئے افغانستان میں طالبان کو نئی سیاسی پوزیشن حاصل ہو گی۔ اس حیثیت کو تسلیم کرنے کے لئے وہ حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کے تعاون کی محتاج ہوں گی۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر گزشتہ ایک دہائی کے دوران افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی سرپرستی کی ہے۔ اسی لئے اب یہ گروہ بھی پاک فوج کے خلاف جنگ کرنے والے گروہوں سے نبردآزما ہونے پر تیار ہوں گے۔ اس طرح انہیں پاکستان کی اعانت بھی حاصل ہو سکتی ہے۔یہ حالات تحریک طالبان پاکستان کے لئے نہایت مشکل اور دشوار گزار ہیں۔
Taliban
کوئی بھی حکومت بہتر سیاسی حکمت اختیار کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کر سکتی تھی۔ طالبان شدت پسند ہونے کے باوجود خاص مفادات کے حصول کے لئے جنگ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف جنگ جاری رکھنے کی صورت میں ان مفادات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کے باوجود حکومت پوری قوم کا اعتماد حاصل ہونے کے باوصف طالبان کے ساتھ مواصلت کا کوئی سلسلہ شروع نہیں کر سکی۔
وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ ہفتے تحریک انصاف کے عمران خان، جماعت اسلامی کے سید منور حسن اور جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن کو یہ دعوت دی تھی کہ وہ طالبان کے ساتھ مصالحت کے لئے تعاون فراہم کریں۔ گو بظاہر یہ پیشکش فراخدلانہ تھی لیکن یہ بھی وزیراعظم کی ایک سیاسی چال ہی کے مترادف تھی۔ اس کا مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو یہ باور کروایا جائے کہ باقی جماعتیں محض زبانی جمع خرچ کررہی ہیں اور طالبان کی ”ترجمان” بننے کے باوجود ان کو مذاکرات کی طرف آمادہ کرنے کے اہل نہیں ہیں۔
وزیراعظم کے اس سیاسی بیان کا جواب بھی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے اسی انداز میں دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے تو اپنی جماعت کو حکومت میں حصہ دار بنا کر خود کو میاں نواز شریف کا ساتھی ڈکلیئر کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر نے اس پیشکش کا یوں ٹھٹھہ اڑایا کہ انہوں نے وزیراعظم سے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے لئے حمزہ شہباز کو نامزد کیا جائے۔ اس بیان کا سوائے اس کے کیا مقصد ہو سکتا ہے کہ جماعت اسلامی اس حوالے سے تعاون پر آمادہ نہیں ہے۔ عمران خان تو مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
آج انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مذاکرات کے سلسلہ میں حکومت کی ناکامی کے بعد اب نئی آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے جس میں معاملات پر ازسرنو غور کیا جائے۔ انہوں نے بنوں میں جاں لیوا حملہ کو بھی میاں نواز شریف کی ناکامی قرار دیا ہے۔ اس سے قبل وہ یہ قرار دے چکے ہیں کہ طالبان نہ اسلام دشمن ہیں اور نہ ہی پاکستان دشمن ہیں۔ وہ صرف بھٹک گئے ہیں۔ تاہم وہ ان بھٹکے ہوئے عناصر کی رہنمائی کرنے اور انہیں مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لئے اپنا رول ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے ان کے پاس اختیار اور مینڈیٹ نہیں ہے۔ وہ صرف ایک صوبے میں حکمران ہیں۔ فوج ان کے براہ راست کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس لئے وہ طالبان سے مذاکرات کے لئے کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ ہمیشہ کی طرح عمران خان کی ساری منطق حکومت کی ناکامی اور بدنیتی کا ذکر کرتے ہوئے مکمل ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے بعض اہم وزیر ایک طرف خیبرپختونخوا حکومت اور عمران کے خلاف سخت سیاسی الزام تراشی میں ملوث ہیں تو وزیراعظم عمران خان سے تعاون کی اپیل کر رہے ہیں۔ یوں بھی اگر کسی اہم سیاسی مسئلہ پر کسی اہم پارٹی کا تعاون مطلوب ہو تو اسے اخباری بیانات کے ذریعے طلب نہیں کیا جاتا بلکہ میڈیا کی نظروں سے اوجھل براہ راست روابط میں اس قسم کے معاملات طے ہوتے ہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت کی نوید سنانے کے بعد اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس مذاکرات کی کنجی نہیں ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر عالمی طاقتوں کو قومی مسائل کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ 9/11 کے بعد پوری دنیا محفوظ ہو گئی ہے لیکن پاکستان غیر محفوظ ہو گیا ہے۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اس کی ذمہ داری پوری دنیا پر کیوں کر عائد کی جا سکتی ہے۔ وزیر داخلہ کس منہ سے اس دنیا سے تعاون کی خواہش ظاہر کررہے ہیں جسے وہ اپنے مسائل کا ذمہ دار بھی سمجھتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کی دلیل کا اگلا حصہ سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے حوالے پر مشتمل ہوتاہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پرویز مشرف سے لے کر زرداری کی حکومت نے کون سی کوتاہیاں کی ہیں۔ تاہم ان کا زوربیان تنقید، نکتہ چینی اور حرف زنی سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
محب وطن شہریوں، مبصرین اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں ہر سانحہ سیاست کی نذرنہ کیا جائے کیوں کہ پاکستانی قوم کے مستقبل کا سوال ہے۔ سیاسی الزام ترشی ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی پاکستان کا ایک قومی مسئلہ ہے۔ اسے حل کرنے کے لئے پوری قوم کو یکجان ہونا پڑے گا۔ قوم کسی حد تک اس بات پر متفق بھی ہے کہ انتہاپسندوں سے نمٹنے کے لئے مؤثر کارروائی ضروری ہے۔