آج خداجانے کیوں ..؟ انقلابی علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلاب مارچ کے اعلان کے بعد سے ہی مجھے پڑوسی ملک کی فلم ”اندھاقانون” کا یہ گانا کثرت سے یاد آرہا ہے اور ابھی جب میں اپنایہ کالم لکھ رہاہوں تب بھی یہی گانامیرے لب پہ ہے۔
ہنستے ہنستے رونا سیکھو اور روتے روتے ہنسنا جتنی چابی بھری رام نے اتنا ہی چلے کھلونا
اب اس کے بعد دل تو بس یہی چاہ رہاہے کہ آج اپنایہ کالم یہی ختم کردوں مگر کیا کروں کہ میں بھی اپنی عادت سے مجبورہوں جب تک کھل کر لکھ نہ لوں میں قلم کو نہیں چھوڑتااور قلم مجھے…بہرحال..! ملک کی موجودہ صورتِ حال میں سب ہی کو اِس بات کا اندازہ ہو گیاہو گا کہ آج میرے ملک میں وہی 1977 والی تاریخ پھر سے دھرائی جارہی ہے، جب اس وقت کی برسرِاقتدارجماعت اور اقتدارکا مسندسنبھالنے کے قریب ہونے والی جماعت کے خلاف بھی ہماری کچھ مذہبی و سیاسی جماعتوں کا اتحادعمل میںلایاگیایایہ پھر کسی خودروپودے کی طرح خودہی پیداہو گیا تھااس وقت کی اتحادی جماعتوں نے بھی ملک میں بہت بڑی بڑی مذہبی وسیاسی تبدیلیاں لانے اور ملک کوکسی کروٹ بیٹھانے کے بہت سے وعدے کئے تھے مگر جب اِنہیں پسِ پردہ اسکرپٹ لکھ کر دینے اورہدایات دینے والوں نے سمجھ لیاکہ اِنہیں اتحادیوں سے جتناکام لیناتھاوہ انہوںنے لے لیاہے توان شاطر وعیاراور مکاروں نے اِنہیں سیاسی اسکرین سے ہٹادیااوراُس سارے سیاسی بھونچال کے رائٹراور ڈائریکٹرخودہی سامنے آگئے اوریوںتب سے آج تک اُن ساری اتحادی جماعتوں کا نام ہمارے سیاسی تاریخ کے ابواب میں تو درج ہے۔
مگرآج اِن کا وجود کہیںبھی نظرنہیں آتاہے ، یعنی یہ کہ اُس وقت کی ساری اتحادی جماعتیں بھی اندھے قانون، اندھے اسکرپٹ اور اندھے ڈائریکٹرکی سازشوں کا شکارہوئیں اور اُس وقت کی اچھی بھلی حکومت کے سربراہ کے خلاف محاذآرائی کی اور بعد میں اُس کا جو حشرکیا آج تک یہ بھی قوم نہیں بھول پائی ہے،یقینااُس وقت کے سربراہ سے بھی سیاسی تدبر سے ہٹ کر کچھ ذاتی اور جذباتی طورپر ایسی غلطیا ںضرورسرزدہوگئی ہوںگیںجس کا خمیازہ اُسے اُس صورت میں بھگتناپڑا ہے آج جیسے اِس کے حامی توحامی اُس کے مخالف لوگ بھی حقیقی معنوں میں سیاسی شہید کہہ کر اُسے یادکرتے ہیں اِن کا اِسے یوں تسلیم کرلینابھی کافی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہیں اور مان رہے ہیں کہ اِن لوگوں نے اُس کے خلاف ا تحادبناکر کچھ اچھانہیں کیاتھااور اُسے کسی اور کے کہنے پر وہاں پہنچادیاہے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتاہے ،آج مُلک میں جو سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے مجھے ایسالگتاہے کہ جیسے آج اِس ساری صورتِ حال میں پھرویساہی اسکرپٹ لکھاگیاہے اور اِس کے ڈائریکٹربھی وہیںکے لوگ ہیں جہاں کے پہلے تھے فرق صر ف اتناہے کہ آج اداکاروں اور اسکرپٹ لکھنے اور ہدایات دینے والوں کی شکلیں بدل گئی ہیں اور موجودہ حالات میں مجھ سمیت کڑوروں پاکستانی ایسے ہیں جو یہ بات اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ آنے والے دِنوں میںپھر میرے مُلک میں وہی کھیل کھیلاجارہاہے جو 1977میں کھیلاگیاخاکم بدہن اگرواقعی ایساہے..؟جس کاگمان کیا جارہاہے تو پھر یقین جان لیجئے کہ اِس مرتبہ ہم شاید سنبھال بھی نہ پائیں اور ہماراشیرازہ ایسا بکھرکررہ جائے گاجوپھر کبھی بھی درست نہ ہوپائے گا۔
بہرکیف ..!راقم الحرف مزیدکچھ کہنے سے قبل اپنے حکمرانوں سے یہی عرض کرناچاہئے گاکہ خداراجوش کے بجائے ہوش سے کام لیں جذباتی اور انقلابیوں سے مقابلہ کرنے اور جلتی پر تیل چھڑکنے کے بجائے ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لیں اور انقلابیوں کی بھڑکتی یا بھڑکائی گئی آگ کو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈے انداز سے ڈیل کریں تو یہ نہ صرف اِن کے لئے بلکہ ساری قوم کے لئے بھی بہترہی کیا بلکہ بہت ہی بہت ہوگااَب ذراتذکرہ ہوجائے اپنے جذباتی حکمرانوں اور انتقامی و ذاتی لڑائیوں میں پڑے اُن انقلابیوں کاجو اکٹھے ہوکر حکومت کے خلاف 14اگست سے آزادی و انقلاب مارچ شروع کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔
Imran Khan
اگرچہ آج حکومت لاکھ انکار کرلے کہ عمران کے آزادی مارچ اور قادری کے انقلابی مارچ کے ملاپی عمل کے اعلان کے بعد یہ پریشان اور بوکھلاہٹ کا شکار نہیں ہوئی ہے تو یہ پاکستان کی تاریخ اور رواں صدی کاسب سے بڑاجھوٹ ہوگا،آج پاکستانی قوم باشعور ہو چکی ہے،اور ہر بات اچھی طرح سے سمجھنے اور سوچنے کے قابل بھی ہوگئی ہے کہ اِس کی اور حکمرانوں کی کیاذمہ داری ہے..؟اَب موجودہ حالات میں حکومت اپنی کیفیات عوام سے شئیرکرے اور حکمران کھل کر اپنے جذبات قوم کے سامنے بیان کریں تو اگلے دِنوں میںاِنہیں کسی بھی قسم کے فیصلے کرنے میںسُبکی کا سامنانہیں کرناپڑے گا،اگر ابھی حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ قوم یہ نہیں سمجھتی ہے کہ موجودہ حالات میں حکمرانوں کی کیا کیفیات ہیں تو یہ حکمرانوں کی اپنی بھول ہے ورنہ قوم تو وہ کچھ سمجھتی اور جانتی ہے جو کہ حکمران بھی نہیں جانتے ہیں۔
آج بالآخر پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرعلامہ طاہرالقادری نے دس اگست کو ایک بڑے عرصے انتظار کی گھڑیاں گزارنے اور اپنے کارکنان کا صبروبرداشت کا امتحان لینے کے بعد ادارے منہاج القرآن کے مرکزپر سانحہ ماڈل ٹاؤن اور ضرب عضب میں شہیدہونے والے شہدا ء کی یادمیں یوم شہداء کی سادہ مگرپُرہجوم تقریب سے اپنے طویل خطاب کے بعداپنی جماعت پاکستان عوامی تحریک کا14اگست سے شروع ہونے والے ولولہ انگیز انقلاب کا بھی اعلان کردیاہے ۔
اگرچہ علامہ طاہرالقادری نے اپنے جذباتی خطاب میں انقلاب کا اعلان جس انداز سے کیا وہ بھی قابلِ دیدوقابلِ سماعت تھا، اِس موقع پراُنہوں نے کہاکہ مجھے شہیدکرنے کا منصوبہ بن چکاہے اگرمجھے قتل کردیاگیاتو کارکن شریف برادران سے بدلہ لیں اور اِن کے خاندان کے کسی فرد کو نہ چھوڑیں ،اور اُنہوں نے کہاکہ اَب وہ اُس کا اعلان کرنے جارہے ہیں جس کے لئے کارکنان اوردنیا کو بڑے عرصے سے انتظارتھااُنہوںنے کہاکہ ”14اگست کو آزادی مارچ اور انقلاب مارچ ساتھ ساتھ چلیں گے اور علامہ نے اپنے اِس فیصلہ کُن اعلانِ انقلاب کے بعد اپنے ہزاروں کی تعداد میں جمع پیروں کاروں اور کارکنوں کو باربارمذہبی حوالے دے کر اور اِن سے قسمیں دلوادلواکر اِس بات کا عہدلیا کہ اَب اِن کے اعلانِ انقلاب کے بعد سب کے سب اِن کے مارچ میں اِن کا ساتھ دیں گے اوراِن کی اقامت گاہ ماڈل ٹاؤن میں ہی 3دن تک رہیںگے اورکوئی ایک انچ بھی باہر نہیں نکلے گااپنے اعلان ِ انقلاب کے بعدعلامہ نے جس طرح مذہبی و تاریخی انقلابات میں حصہ لینے والوں کی داستانیں اور واقعا ت بیان کئے اِس کی بھی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے مگر اَب اِس پر کوئی کچھ بھی کہئے مگردوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ انقلابی علامہ ڈاکٹرطاہرالقادری اپنے پیروںکاروں کو انقلاب کے اچھے یا بُرے انجام تک پہنچنے اور انقلاب سے کیسے بھی نتائج حاصل ہونے تک اپنے چاہنے والوں کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
تواُدھرہی علامہ کے ایک اشارے پہ اپنی جانیں نچھاوڑ کرنے والے پیروں کاروں کا جذبہ بھی دیکھنے والاہے کہ اُنہوں نے اپنے مرُشدسے عہدووفاکرکے اپناسب کچھ علامہ کے حوالے کردیاہے تو اگلے ہی لمحے سے حکومتی وفاقی چرب زبان وزراء پرویزرشید، احسن اقبال اور بالخصوص جن میں دوخواجگان خواجہ سعدرفیق ، خواجہ آصف بھی شامل ہیں اِن کے علاوہ پنجاب کے وزیرقانون رانامشہودسمیت اور بہت سے صوبائی وزراء اوراراکین ن لیگ کی بے لگام بیان بازی بھی اپنے عروج پرپہنچی نظرآنے لگی ہے،اِن کا لمحات میں حالات اور واقعات کی نزاکت کو سمجھے بغیربے تکی بیان بازی اپنے ہی ہاتھوں اپنی جمہوری حکومت کو ڈی ریل کرنے کی ذمہ دار ہوسکتی ہیں۔
جہاں پاکستان عوامی تحریک کا چودہ اگست کو انقلاب مارچ شروع کرنے کے اعلان کے بعد حکومتی وزراء بیان بازی میں بے لگام نظرآتے ہیں تو وہیںوزیراعظم نوازشریف نے اپنے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف سے 3گھنٹے سے زائدتک ملاقات کی اور اِس دوران قادری کے انقلاب مارچ اور عمران کے آزادی مارچ سے پیداہونے والی مُلکی صورت حال پر غوروخوص کے بعد دونوں بھائیوں نے اپنے اِس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کو اتحاداور یکجہتی کی ضرورت ہے، احتجاج دھرنوں سے حکومت ختم نہیں ہوگی، انتشاراور فساد کی سیاست کرنے والے مُلکی ترقی و خوشحالی کے دُشمن ہیں ہر صورت جمہوریت کاتحفظ کرنااور اِس کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو ناکام بناناہے،ملک میں ترقی و خوشحالی کا سفرہر حال میں جاری رکھیں گے اور اِس موقع پر افسوس ناک بات یہ ہے کہ دونوں بھائیوں نوازشریف اور شہباز شریف نے بھی بغیر سیاسی تدبر اور حکمت سے کام لئے یہ جذباتی فیصلہ کرلیاکہ کچھ بھی ہوجائے اَب پی ٹی آئی کے لانگ مارچ سے سیاسی طورپر عوامی تحریک کے انقلاب سے انتظامی بنیادوں سے ہی نمٹاجائے گیااور ساتھ ہی تین گھنٹے کی اِس ملاقات میں دونوں بھائیوں نے تحریک انصاف کے 14اگست کے آزادی مارچ اور عمران خکان کی جانب سے مسلسل مذاکرات سے انکاراور قادری انقلاب کے حوالے سے پیداہونے والی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد یہ عزم بھی کیا کہ اگرکوئی یہ سمجھتاہے کہ کوئی آسانی سے عوام کے ووٹوں سے اقتدارمیں آنے والی منتخب جمہوری حکومت کو احتجاجوں اور دھرنوں سے ختم کردے گاتو ایساکسی بھی صورت نہیں ہوگا۔
Shahbaz Sharif
شہباز شریف نے کہاہے کہ ہم سیاسی تدبرسے کام لیتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق ساری صورتحال کو جلدقابوکرلیں گے اور ہماری یہ کوشش ہوگی کہ فوجی مہم جوئی ہواور نہ عوام نطام کو پٹری سے اُترنے دیںگے، سب کچھ افہام وتفہیم سے حل ہوجائے گا،جبکہ اُدھر ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے کہا ہے مارچ سے قبل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش مستردکرتے ہیںاِن کاکہناہے کہ ہرصور ت میںمارچ کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیاگیاہے، تحریک انصاف کے رہنماؤں جاویدہاشمی اور شیرین مزاری کاکہناہے کہ ہمارے قائدعمران خان کی نظربندی ، مارچ روکنے کی صورت میں شدیدمزاحمت کا فیصلہ کرلیاگیاہے، کارکنان راستے میں حائل کنٹینرزہٹانے کا سامان ساتھ لائیں، مارچ ہر صورت میں ہوگااور اندھالی سے اقتدارمیں آئے ہوئے ظالم اور ملک کو لوٹ کھانے والے بادشاہ بنے حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے اور اِن سے اقتدار کی مسندچھین کر اِن سے قوم کی ایک ایک پائی کا حساب لینے تک مارچ اور دھرناجاری رہے گا،اور ایسے ہی حکمران مخالف عزائم قادری صاحب کے بھی ہیںاُنہوں نے بھی اپنے کارکنان سے وعدے لے لئے ہیں کہ انقلاب آنے تک کوئی بھی واپس نہ آئے اور جو بھی انقلاب کی راہ پلٹنے یاواپس آنے کی کوشش کرے کارکنان اُسے بھی مارڈالیں۔
آج جب اس طرح ملک میں تبدیلی کے خواہاں افرادانقلاب کے لئے پرعزم ہیں تو ملک کو درپیش سیاسی ہلچل میں حکمران جماعت اور وزیراعظم نواز شریف کو بھی پریشان ہونے کوئی ضرورت نہیں ہے وہ بھی انقلابیوں سے چھٹکارے اور ان سے نمنٹنے کے لئے اپناایک ”نجات مارچ” دو دن میں ہی لانچ کرلیں اور بغیر کسی لاٹھی ڈنڈے کے استعمال سے وہ کام کر جائیں جیساانقلابی اور مارچی دعوے کر رہے ہیں کہ ان کے مارچ پرامن اور ہر قسم کی تشدت سے پاک ہوں گے توپھر دیرکس بات کی ہے حکومت بھی اپناایساہی کوئی مارچ 14اگست کو سامنے لے آئے اور انقلابیوں اور مارچیوں کو اپنے مارچ کو کامیاب بنانے کی دعوت بھی دے ڈالے۔