ہمارے سیاسی ورکر اپنے اپنے مفادات کی خاطر اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ وہ اپنے لیڈر کے خلاف کوئی بھی بات سننا گوارا نہیں کرتے اور بات گالی گلوچ تک پہنچ جاتی ہے اور اوپر سے ہمارے مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر دکھائے جانے والے ٹاک شوزان جلتی ہوئی باتوں پر تیل کا کام کرتے ہیں اور رہی سہی کسر ہماری سیاسی جماعتوں میں بیٹھے ہوئے سوشل میڈیا نیٹ ورک چلانے والوں نے پوری کردی ہے اور اب تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے پورا ملک ہی کرپٹ اور چور بن چکا ہے۔
کسی طرف سے کوئی امید اور آس کی کرن نظر نہیں آرہی آجکل سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور انکے بیٹے ارسلان افتخارکو مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں نے آڑے ہاتھو ںلیا ہوا ہے جبکہ اینکر ایسے بھی ہیں جو ارسلان افتخار کے ساتھ مخالف پارٹی بن کرالجھ رہے ہوتے ہیں جیسے یہ سب دودھ کے نہائے ہوئے ہیں اور سب سے بڑی خامی والی بات یہ ہے کہ ہم لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں ایک بات کسی نے سوشل میڈیا پر شرارتن پھیلا دی تو پھر سب آنکھیں بند کرکے اسی فضول بات پر بحث شروع کردیتے ہیں ابھی پچھلے دنوں کسی نے سوشل میڈیا پر ایک بے پر کی اڑا دی کہ ایک پروگرام میں پی ٹی آئی کے رکن نے ارسلان افتخار کو تھپڑ دے مارے ہوسکتا ہے۔
یہ تحریک انصاف والوں نے اپنے لیڈروں کو پرموٹ کرنے کے لیے ایسی بات چھوڑی ہو جسکا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ ہم آج بھی اسے دلیر انسان سمجھتے ہیں جو بات دلیل سے کرنے کی بجائے ہاتھ سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے ارسلان افتخار کو بلوچستان حکومت نے عہدہ کیا دیا پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اسکے خلاف اکٹھی ہوگئی یہ وہ لوگ ہیں جو افتخار چوہدری سے خار کھائے بیٹھے ہیں جن کو انکی امیدوں کے مطابق فیصلے نہیں ملے پاکستان میں ہر کسی پر الزام لگانا بہت آسان کام ہے مگر اس الزام کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔
ارسلان افتخار کو اگر کام کرنے کا موقعہ دیا جاتا تو ہوسکتا تھا کہ بلوچستان میں اربوں روپے کے جو زخائر ہیں انکو نکال کر بلوچستان اور پاکستان کی ترقی کی راہ پر لگایا جاتامگر ہمیں یہ منظور نہیں ہے ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان کی عوام پسماندگی کی زندگی ہی گذارے انکا معیار تعلیم اورطرز زندگی نہ بدلے اور ایسا کرنے والے کیا ملک وقوم کے دوست ہوسکتے ہیں ایک طرف سے چور کا شوربلند ہوتے ہیں دوسری طرف سے لوگ ڈنڈے سوٹے ہاتھ میں لیے باہر نکل آتے ہیں اور کوئی کسی سے تصدیق کرنے کی کوشش نہیں کرتا کہ بھائی کیا چوری ہوا ہے کس نے کیا ہے اور کیوں کیا ہے جب ڈنڈے اور سوٹے کھانے والا دم توڑ چکا ہوتا ہے۔
تب قانون حرکت میں آتا ہے اور پھر بعد میں تحقیقات شروع ہو جاتی ہیں اسی طرح کا ایک واقعہ سیالکوٹ میں بھی ہوچکا ہے ہم پوری قوم لکیر کی فقیر بن چکی ہیں ارسلان افتخار کو پروگرام میں تھپڑ نہیں مارا گیا مگر انکے مخالف گروپ نے اس بات کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ ہر پروگرام میں اس پر بحث شروع ہو گئی کہ ارسلان کو تھپڑ مارا گیا کسی نے اس بات کی تحقیق کرنے کی کوشش نہیں کی کہ کیا ایسا واقعہ پیش بھی آیا ہے۔
Pakistan
نہیں ایک خبر کسی کے خلاف اخبار میں شائع ہوجائے تو سب چینلز والے اس پر ایسے بحث کررہے ہوتے ہیں جیسے پاکستان کی بقا کا مسئلہ اس وقت یہی بنا ہوا ہے اس خبر کی حقیقت پر کوئی نہیں جاتا کہ آیا یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی ہم لوگ اپنی زاتی تسکین اور اپنے چینلز کے مالکان سے وفاداری نبھانے کی خاطر ہر اس بات کو ایشو بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ہماری بدنامی ہو ابھی پچھلے دنوں ایک ٹیلی ویژن کے ٹاک شو میں مسلم لیگ ن کے ایم پی اے میاں مرغوب اور ابراہیم مغل نے آپس میں لڑتے لڑتے ایک دوسرے کو ننگی گالیوں سے بھی نواز دیا ایسے پروگرام دیکھ کر کون کہے گا۔
ہم مہذب قوم کے مہذب شہری ہیں ہمیں تو اپنی بات کو دلیل سے سمجھانا بھی نہیں آتا ہم جھوٹ بول رہے ہوتو پھر اپنے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے لڑائی مار کٹائی تک اتر آتے ہیں اصل میں ہماری تربیت ہی ایسے ہوئی ہوتی ہے جسکا اظہار کسی نہ کسی موقعہ پر ہو ہی جاتا ہے اب تو میڈیا بھی آزاد ہے بلکہ بہت زیادہ آزاد ہے۔
اگر ہم وعدوں پہ وعدے کرنے والے حکمرانوں کو بار بار آزما سکتے ہیں منی لانڈرنگ اور فائلوں کو پہیے لگوا کر اپنا کام نکلوانے والوں کو ہم اپنے سروں پر بٹھا سکتے ہیں تو ارسلان افتخار کوبھی کام کرنے کا موقعہ ملنا چاہیے ہوسکتا ہے کہ بہتری ہوجاتی ورنہ لٹھ لے کر تو ہم ویسے بھی پیچھے پڑے ہی ہوئے ہیں پھر ہم نے کہا معافی دینی تھی اور رہی افتخار چوہدری کی بات تو انہوں نے اپنی ملازمت میں بطور چیف جسٹس عدلیہ کا وقار بحال کیا اور بڑے بڑے فیصلے کرکے حکمرانوں کو انکی چوریوں سے روکا اگر حکومت کو عدلیہ کا ڈر بھی نہ ہوتا تو پھرپورا ملک گروی رکھ دیا جاتا قوم تو پہلے ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ہاتھوں بک چکی ہے۔