تحریر : رائو عمران سلیمان سانحہ ماڈل ٹائون کی بات کی جائے یاپھر کراچی کی سڑکوں کی !آج تک ان مقامات پر مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان ہی مرتے چلے آئے ہیں۔اپنے اپنے لیڈران یا ان کے عہدیداران کو خوش کرنے کا فلسفہ اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ کارکن ان کی میٹنگوں اور جلسوں کی کرسیاں لگاکر،اسٹیج کی تیاریوں میں حصہ لے کر اوران کے حق میںنعرے لگاکر اپنی حیثیت کو بڑھا رہے ہوتے ہیں ،ایسے کارکنوں کا بنیادی مقصد نوکریاں لینا یا پھر یونین کونسل کی سطح پر اپنی اجارہ داری کو قائم کرنا ہوتا ہے، دیکھا جائے تو کارکنوں کی بھی حکومتی وزراء کی طرح مختلف کیٹاگیریز بنی ہوتی ہیں سب سے کم کیٹگری کے کارکن کو جلسے جلوسوں کی کرسیاں لگانے اور نعرے بازی کے لیے تھوڑا بہت خرچہ یا ایک وقت کا کھانا بھی مل جاتاہے جس کے حصول کے لیے وہ سارا دن دھوپ چھائوں میں ہلکان ہی رہتا ہے جبکہ کچھ اسی قسم کے کھاتے پیتے کارکن جن کو یونین کونسل یا حلقے کی سطح پر کوئی عہدہ نہیں ملتا وہ کچھ دے دلا کر وزیراعلیٰ کا مشیر بن جاتاہے جس کا اصل مقصد اپنے علاقے میں وائٹ کالر کو مزید تقویت دینا ہوتی ہے۔
میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہو ں کہ جو وزیراعلیٰ کے مشیر کا عہدہ دلانے کے لیے پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں ۔دیکھا جائے تو کہنے کو تو وہ وزیراعلیٰ کے مشیر ہوتے ہیں جو کہ ہر دوسری یا تیسری گلی میں ہی مل جاتے ہیں مگر ان کی حیثیت اس سے بڑھ کر نہیں ہوتی کہ ان کو لیڈران جانتے تک نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے وزیراعلیٰ صاحب ملنا پسند کرتے ہیں ماسوائے چند ایک کے ۔ میرے اس آرٹیکل کا مقصد کسی بھی جماعت کے کارکن کی دل آزاری کرنا نہیں ہے بلکہ اس تحریر کا بنیادی مقصد عوام میں بنیادی طور پر شعور پیدا کرنا ہے جس کے لیے میراقلم کسی سے بھی اجازت طلب کرنے کا مجاز نہیں ہے چاہے وہ کسی جماعت کا لیڈر ہو یا کارکن ۔جہاں کارکنوں کی جانب سے کرسیاں لگانے کی بات ہے تو دوسری طرف اس ملک میں خاندانی وراثت کا بھی راج پاٹ ہے پنجاب کے ایک لیڈر میاں نوازشریف کے خاندان کے بچے مریم نواز،حسن نواز ،حسین نوا ز جبکہ میاں شہباز شریف کا ایک بیٹا میاں حمزہ شہباز شریف ہے جو کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے مراعات کے بھی ٹھیکیدار ہیں اور اس کے ساتھ ایم این اے بھی حالانکہ وزیراعلیٰ کے لیے ایم این اے کی بجائے ایم پی اے کی سیٹ پر قانون لاگوہوتاہے چونکہ حمزہ شہباز کا والد میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب پر فائز ہے لہذا میاں حمزہ شہباز اس نشست کے سارے مزے ایک وقت میں لے لیتے ہیں۔
یہ ہی حال محترمہ مریم نواز صاحبہ کا ہے جو والد کی نااہلی سے قبل ارکاکین قومی اسمبلی کے اجلاسوں کی صدارت کرتی رہی ہیں یہ اور بات ہے کہ موجودہ وزیراعظم تو شریف خاندان کا مکمل ہی خدمت گزار ہے ،ایک اور خاندانی وراثت کی مثال شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو صاحب ہیں جو صوبہ سندھ کے کرتا دھرتا دھرتا مانے جاتے ہیں اور سرکاری سطح پر دیکھا جائے تو ان کے پاس نہ ہی ایم پی اے کی سیٹ ہے اور نہ ہی وہ کبھی ایم این اے رہے ہیں مگر پی پی کے خورشید شاہ سے لیکر اعتزاز حسن تک کو انگلیوں پر نچاتے ہیں ۔تو گویا ایک مراعات یافتہ ایم این اے جب ان سیاسی لیڈروں کے برخوداروں کے انگلیوں پر ناچتے ہیں تو پھر کارکنان تو ان کی راہوں میں لازمی پلکیں بچھائینگے ۔ان سیاسی لیڈروں کے برخوداروں کی بھی وہ ہی حیثیت ہے جو کہ ان کے بڑوں کی ہوتی ہے ان کے کارکنان ان کی گاڑیوں اور قدموں کو دیوانہ وار ایسے ہی چومتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ہی تو ہیں جو ان کے سیاسی آقائوں کے گدی نشین ہیں اورجو آنے والے دنوں میں اس ملک پر حکمرانی کرینگے ۔اس قوم میں یہ سوچ اس قدرگھر چکی ہے کہ جسے نکالنے کے لیے ایک طویل مشقت کی ضرورت ہے اور شاید یہ وہ کوشش ہوگی جو زندگی میں پہلی بار ناکام ہوگی کیونکہ جب تک کوئی آدمی خود کو بدلنا ہی نہ چاہے اس پر کوئی بھی نصیحت اثر نہیں کرسکتی۔
اس ملک میں ایک سیاسی جماعت ایسی بھی ہے جن کے کارکنان کی لاشیں ماضی میںبطور ہڑتالوں کے لیے استعمال کی گئی اس جماعت کے کارکنان اپنے قائد سے اس قدر عقیدت رکھتے تھے کہ دوران تقریر ان کے سر بھی نہ ہلتے تھے کہ گویا ان کہ سروں پرکبوتر بیٹھے ہیں کہ یہاں زرا سے ہلے اور وہاں کبوتر اڑے۔ان معزز کارکنان کا ایک مخصوص گروپ جو کہ تھوڑے بہت پڑھے لکھے لوگوں پر مشتعمل ہے آج کل سوشل میڈیا پر بیٹھ کر اپنے اپنے لیڈران کے حق میں اچھائی اور مخالف جماعت کے سربراہوں کی متنازع یا مزاحیہ تصویروں کے خاکے بناکر خود بھی مشتعل دکھائی دے رہے ہیں اور اپنے ساتھی کارکنان کے کمنٹس دلواکر ان کو بھی شعلہ بیانیوں پر اکسا رہے ہیں۔کوئی کسی کی ریلی کو کم بتا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتا ہے تو ووسری جانب اپنے جلسے جلوسوں کی بہترین تصاویر کوشیئر کرکے خود ہی دل کی تسکین پارہے ہوتے ہیں،ان کارکنوں کی جانب سے مختلف ناموں سے واٹس ایپ گروپ بھی چل رہے ہوتے ہیں جن میں یہ اپنی ڈرائنگ رو م کی سیاست چلا رہے ہوتے ہیں اور نہایت جزباتی انداز میں ایک دوسرے کو اپنا موقف پیش کررہے ہوتے ہیں ۔ ایسے کارکنان کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ جلسے جلوسوں میں جاکر حکومتی عہدیداروں کے ساتھ تصاویر بنواکر سوشل میڈیا پر بھیجنا اور اپنے ساتھیوں اور حلقہ احباب میں یہ تاثر دینا کہ میرا بڑے بڑے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے اور یہ کہ میں اب معمولی آدمی نہیں رہا ہوں۔
سوشل میڈیاپر ایسے کارکنان قدم قدم پر دستیاب ہیں جن کا مسئلہ سیاسی کم اور نفسیاتی زیادہ دکھائی دیتا ہے،آج کل اس بھیانک مرض میں سیاسی کارکنوں کے ساتھ بہت سے صحافی حضرات بھی گرفتار ہیں جن کی اوٹ پٹانگ گفتگو سے لگتا تو نہیں ہے کہ یہ کسی اخبار کا معزز صحافی بھی ہوسکتاہے خیر ان نفسیاتی کارکنوں کے جزبات کا بھرپور فائدہ سیاسی لیڈران اٹھارہے ہوتے ہیں جیسا کہ حالیہ دنوں میں نواز شریف صاحب نے اسلام آبادسے لاہور کا سفر کیا تو اس میں موجود لوگوں کے سروں کے گننے کا مسئلہ اہم رہا ہے۔ کم بندے لانے پر ایک اعلیٰ درجے کا کارکن حنیف عباسی جو کہ ایک عرصے تک شریف خاندان کا منظور نظر رہاہے اس روزپنڈی میں نواز شریف کے استقبال کے لیے کم تعداد میں کارکن لانے کی پاداش میں نوازشریف سے زبردست ڈانٹ ڈپٹ کھاچکے ہیں ۔دوسری جانب کارکنان کے بل بوتے پر نوازشریف کی ریلی سے جلے بھنے عمران خان صاحب بھی شریف خاندان کو چیلنج کرچکے ہیں کہ وہ بہت جلد نوازشریف کی ریلی سے دس گناہ زیادہ کارکن سڑکوں پر لاکر دکھائیں گے ۔اب بھائی اس چیلنج کا جواب کارکن ہی دیں تو زیادہ اچھا ہوگا۔