سیاستدانوں کا احتساب اور بائیکاٹ

Accountability

Accountability

تحریر : محمد ریاض پرنس
جس طرح موسم بدل رہا ہے اسی طرح ہمارے ملک کے سیاستدان بھی بدل رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے نئے عام انتخاب 2018ء کے دن نزدیک آ رہے ہیں سیاستدانوں کو بھی عوام نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ ساڑھے چار سال گزر جانے کے بعد آخر ووٹرز کی یاد ان کو ان کے قریب کھینچ ہی لائی ۔ساڑھے چار سال تک ان سیاستدانوں نے پیروں کی طرح ہم سب کو بیٹا ہی دیا ہے ۔ اور روز نیا وعدہ دے کر ہمارے ضمیر سے کھیلتے رہے ۔ہر با ت پہ جھوٹ بولنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ اگر ان کی جھوٹی باتوں کا ہم یقین نہ کرتے تو آج ہم کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے ۔اب ایک بار پھر ان سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ شروع ہو گیا ہے ۔پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے اب پھر یہ سب چور مل جائیں گے ۔اپنے حریف کو بھی بھائی بنا لیں گے۔ کس کی خاطر صرف کرسی اور عیش و آرام کی خاطر ۔ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ کرسی دلوانے کا حق صرف عوام کے پاس ہے جو اس دفعہ ضرور ان کا احتساب کرے گی ۔ اور اپنے ووٹ کا استعمال درست انتخاب پر ہو گا ۔تاکہ جس کو وہ منتخب کریں وہ سیاسی نمائندہ نہ ہو بلکہ عوامی نمائندہ ہو۔

اب پھر ان سیاستدانوں کاگیم پلان شروع ہونے والا ہے ۔اور دھڑا دھڑ کارنر میٹنگ کا آغاز ہو رہا ہے ۔ اب ہونا تو یہ چاہئے کہ جس طرح عوام کو انہوں نے بیوقوف بنایا تھا ہم بھی ان کو اسی طرح ہی کا جواب دیں ۔کیونکہ ہم کو انہوں اب اس قابل بنا دیاہے کہ بجلی نہ ہو تو ہمارے بچے پڑھ سکتے ہیں ۔کھانا نہ ہو تو ہمارے بچے بھوکے سو سکتے ہیں ۔اور اگر کوئی کیس کسی غریب پر تو وہ اندر اور کسی سیاستدان پر ہو تو وہ باہر ۔واہ کیا قانون ہے ہمارے ملک کا۔یہ سیاسی کلچر بنتا جا رہا ہے کہ غریب کو مار دو اور امیر کو چھوڑ دو۔ کتنی شرم کی بات ہے ۔مگرہم کو شرم آتی کب ہے ۔ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ اور ہم جانتے بھی ہیں کہ ہمارے علاقے کے سیاسی لیڈر ہمارے ساتھ کتنے مخلص ہیں اور ان کے کردار کے بارے میں تو ہم خوب جانتے ہیں کہ اس نے کس کس کا حق مارا ہے اور کس کس کو بیوجہ اندر کروایا ہے مگر الیکشن کے آتے ہی ہمارے اند ر کا ضمیر مر جاتا ہے اور ہم پھر ان سیاستدانوں کی باتوں میں آجاتے ہیں ۔اور گلی گلی ان کے نام کا شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر ہمیشہ کی طرح حکمرانوں کے وعدوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

پاکستانی عوام نے جمہوریت کو بچانے کے لئے ہمیشہ اپنے اپنے لیڈروں کا ساتھ دیا مگر یہ لیڈر ان کو کیوں بھو ل جاتے ہیں70سال ہونے کو ہیںمگر ہمارے ملک کی بنیادی خرابی یہ رہی کہ سیاسی نظام مظبوط بنیادوں پر استوار نہ ہو سکا ۔ مگر آج مجھ کو بڑے افسوس اور رنج وغم کے الم میں یہ بات کہنی پڑ رہی ہے کہ قائد اعظم اور نواب زادہ لیاقت علی خاں کے بعد ہم کو کوئی اچھا لیڈ ر میسر ہی نہیں آیا جس نے صرف پاکستا ن اسکی بقاء اور سلامتی کے بارے میں سوچا ہو ۔بڑے بڑے لیڈروں ، سیاستدانوں ،جرنیلوں نے ملک پاکستان کی باگ دوڑسنبھالی مگر ان کو کوئی خاص کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔ کچھ نے تو کرسی کی حوس کی خاطر پا کستان کو تباہ کر دیا اور کچھ نے اقتدار کی حوس اور بھوک کی وجہ سے ملکی ترقی کودائو پر لگا دیا۔ کسی نے بھی یہ نہ سوچا کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کچھ کر لیا جائے ۔ دن گزرتے گئے اور حکمران بھی بدلتے گئے ۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے جنم لینا شروع کر دیا۔ حالات دن بند خراب ہوتے گئے ۔ امیر دن بدن امیر ہوتا گیا اور غریب دن بدن غریب ہونا شروع ہو گیا۔ غریبوں کے بچے غیروں کے مقروض ہوتے گے اور امیروں کے بچوں کی محفلیں ہوٹلوں اور بازاروں میں جمتی گئیں ۔امیروں کو تو ہر طرح کی معرات دی گئی مگر غریبوں کو دھکے اور وعدے ملے۔ میر ا سوال ان موجودہ حکمرانوں سے یہ ہے کہ انہوں نے امیروں کو نوازنے کے علاوہ کسی غریب ،بیوہ ،لاوارث ،یتیم بچوں کا بھی سوچا ہے کہ ان کو بھی یہ سب معرات ملنی چاہئیں ۔یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس ملک میں غریب بھی رہتے ہیں یا پھر غریب ہونا جرم ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ ہم کو یہ سیاستدان جھوٹی تسلیاں دیتے رہتے ہیں اور خود ملک کو لوٹ لوٹ کر اپنا بنک بیلنس اور جائیدادیں بنانے کے نشے میں لگے رہتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم پر انکا بھی کوئی حق ہے جنھوں نے ہم کو اس قابل بنایا ۔ اب اگر ہم کراچی کی سیاسی صورت حال دیکھیں تو ہم کو سب نظر آجائے گا کہ وہاں پر کس طرح عوام کو بیوقوف بنا یا جارہا ہے۔ کراچی شہر کو تباہ وبرباد کرنے والے پھر ایک ہی پلیٹ میں کھانے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔دوسری طرف عمران خاں صاحب عوام کو جھوٹی تسلیاں دے دے کر ان کا بھی وقت ضائع کر رہے ہیں اوراپنا بھی کیونکہ عمران خاں کے دائیں بائیں بھی سب چور کھڑے ہوتے ہیں ۔ وہ ان سے ملک کو کیسے بچائیں گے ۔اگر عمران خاں صاحب خود اور اپنی ٹیم کو سب سے پہلے احتساب کے لئے پیش کرتے تو شاید کچھ ملک کا بھلا ہو سکتا ۔ اور عوام بھی ان کے لئے کھڑی رہتی ۔ مگر یہاں تو سب ہی الٹ ہے ۔کوئی بھی ملک کو بچانا نہیں چاہتا بلکہ سب ملک کے معاشی حالات کو تباہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

ہمارے ملک کے اندر کچھ ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ پاکستا ن دنیا کا سپر پاور بنے ، پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو ، پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کریں ،لوڈشیڈنگ اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو ۔ پاکستان کا ہر فرد خوشی سے رہے اور ہر طرف امن و خوشحالی ہو ۔ مگر یہ سیاستدان اپنی خوشی کے لئے چوروں ،ملک کے غداروں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔ جنہوں نے ملک کو تباہ وبرباد کیا ہو۔ جنہوں نے ظلم کی نندیاں بہائی ہوں جنہوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہو۔یہ چور ایک بار پھر چہرے بدل کر ہمارے پاس آنے والے ہیں ۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی ان کو ان کی ہی زبان میں جواب دیں اورمکمل طور پر ایسے چوروں ،ملک کے دشمنوں ،عوامی ظالموں کا بائیکاٹ کریں۔

جمہوری حکومتوں اور معاشروں میں اختلافات رائے جمہوریت کو کمزور کر دیتی ہیں ۔جمہوریت کی بقاء اور اپوزیشن کے جلسے جلوس کو جمہوریت کے حسن سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح پاکستان کے تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ۔ آج ملک کو درپیش مسائل کا سامنہ ہے ۔پاکستان کے موجودہ تما م سیاست دان صر ف اپنے حا لات سیدھے کرنے میں لگے ہوئے ہیں ان کو پاکستان کے کسی بھی فرد سے محبت نہیں ہے ۔ یہ پاکستان کا مستقل تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔پاکستان کے ادارے اتنے طاقت ور نہیں کہ ان کا احتساب کر سکیں ۔ ان کا احتساب اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہ ہے عوام کی طاقت۔ اگر اب بھی ہم نے ان کا احتسا ب نہ کیا تو یہ ملک کو دیمک کی طرح کھا جائیں گے nm۔

ہم سب جانتے ہیں کہ سیاستدانوں کے وعدے کتنے دل دکھانے والے ہوتے ہیںاور ان میں کتنی سچائی ہوتی ہے ۔ اب پھر وہی وقت لوٹ کرآنے والا ہے اگر ہم ملک کے ساتھ سچا پیار کرتے ہیں توملک کو ان غداروں سے بچانا ہے۔ اب ہمارے پاس ان کا احتساب کرنے کا پورا پورا موقع ہے ۔ ان کو بھی پتہ چلنا چاہئے کہ ہم نے ان کوکیا دیا ہے اور کس امید سے وہ ہمارے پاس آئیں گے اگر اس بار بھی ہم نے بائیکاٹ اور احتساب نہ کیا تو ہم کبھی بھی ان کا احتساب نہ کر پائیں گے ۔اور یہ پھر ہم پر مسلط ہو جائیں گے ۔ان جھوٹے سیاستدانوں کو پتہ چلنا چاہئے ۔ کہ ہمارے ووٹ کی کیا اہمیت ہے۔اور عوام کی طاقت کیا کر سکتی ہے۔

Muhammad Riaz Prince

Muhammad Riaz Prince

تحریر : محمد ریاض پرنس
( اوکاڑہ )
موبائل: 03456975786