شیخ: خالد زاہد مرحوم اشفاق احمد ؒ (باباجی) کا اٹلی میں پیش آنے والا ایک انتہائی مشہور واقعہ جہاں وہ بطور استاداپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے آپکو کسی وجہ سے عدالت میں پیش ہونا پڑا اور جب جج کو پتہ چلا کہ آپ پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں تو اس نے بے ساختہ کہا کہ استاد عدالت میں اور کمرہ عدالت میں موجود تمام افراد بشمول جج اپنی اپنی نشستوں سے ایک استاد کی تعظیم میں کھڑے ہوگئے۔ استاد کی ایسی تعظیم و تکریم دیکھ کر استاد خود ہی محوِ حیرت ہوگیا۔اس واقعہ کا مختصر سا تذکرہ کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ دنیا میں اداروں کی کیا اہمیت اور افادیت ہوتی ہے اور اس کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ ادارے ایک دوسرے کی حرمت کو پامال نا ہونے دیں بلکہ ایک دوسرے کی پاسداری کریں۔ دنیا میں ریاستیں نا صرف اپنے اداروں کا احترام کرتی ہیں بلکہ کروانا بھی جانتی ہیں، آپ کسی ملک کے ادارے کے بارے میں کچھ کہہ کر تو دیکھ لیں۔ دوسری بات یہ کہ تمام ادارے باعزت اور ضابطہ اور اصولوں کے تحت چلائے جاتے ہیں ، ان اداروں میں سیاسی عملداری کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ دنیا کہ ترقی یافتہ ممالک اسی وجہ سے ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں کہ وہاں ادارے اپنا کام آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے کر رہے ہیں اور نا ہی کوئی ادارہ کسی ادارے سے الجھ رہا ہے۔
پاکستان دنیا کہ ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں سیاسی جماعتوں کا ایک حجمِ غفیر ہے اور ہر سیاسی جماعت اپنے اثر و رسوخ کیلئے کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتی اس کچھ بھی سے مراد کسی کو معزور کرنے سے لے کر موت کی نیند سلانے تک کا معاملہ ہوسکتا ہے ۔ یہ سیاسی جماعتیں صرف علاقوں تک محدود نہیں رہتیں یہ اپنا اثر و رسوخ اداروں میں بھی پہنچادیتی ہیںیعنی سیاسی بھرتیاں کروا کر ادارے کو اپنے بس میں کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے ۔ پاکستان اسٹیل مل کے نام سے ہر پاکستانی واقف ہے اور یہ کتنا منافع بخش ادارہ تھا یہ بھی آپ اکثر لوگ جانتے ہی ہونگے دوسرا پاکستان کا بہت بڑا اور ملک کا نام دنیا جہان میں روشن کرنے والا ادارہ پاکستان بین الاقوامی ائیر لائن ہے جس نے دنیا کے کئی ممالک کو نا صرف ہوائی جہاز اڑانا سکھائے بلکہ کچھ ممالک میں تو امداد دے کر ان ممالک کو پر لگائے۔ آج یہی ادارہ کن مشکلات سے دوچار ہے ہم سب اس سے باخوبی واقف ہیں۔ پاکستان ریلوے کو بھی لے لیجئے آپ کو بہت ہی مشکل سے ٹرین میں جگہ ملتی ہے مگر یہ ادارہ بھی ملک پر بوجھ بن کر چل رہا ہے ۔ آخر کیا وجوہات ہیں کہ مذکورہ ادارے دھیرے دھیرے نا صرف تباہی کا شکار ہوتے گئے بلکہ یہ عوام کے ٹیکس پر بوجھ بنتے چلے گئے۔ ان اداروں کی تباہی ذمہ آخر کس کے سر پر رکھا جائے تو بہت واضح پتہ چلتا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیوں نے ایسے بہت سے اداروں کو ختم ہی کروادیا ۔ یہ ادارے ملک کیلئے لازم و ملزو م ہونے کی وجہ سے حکومتیں ان اداروں کو پال رہی ہیں۔
دنیا میں سیاست ملک اور عوام کیلئے کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں ہونے والی سیاست سوائے ایک دوسرے کی ٹانگے کھینچنے کے اور کچھ بھی نہیں۔یہاں ادروں میں سیاست کا اتنا عمل دخل ہوتا ہے کہ ادارے اپنے اختیارت استعمال کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ چور کو پکڑنے کیلئے پولیس علاقے میں موجود سیاسی اثرورسوخ رکھنے والی جماعت سے اجازت کی منتظر دیکھائی دیتی ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی کی بلکہ یہاں تک بھی ہوا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ پر باقاعدہ حملہ بھی کیا ، چیف جسٹس آف پاکستان کو معزول بھی کیا گیا راتوں رات قانون پر شب خون بھی مارا گیا، ایک سیاسی جماعت کے رکن نے عدلیہ کو سرِعام سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ ملک کے ایک انتہائی اہم ادارے کی حرمت کو اس سے زیادہ اور کس طرح سے پامال کیا جاسکتا ہے۔پھر یہی سیاست دان فوج کے ساتھ نہیں نباہ پاتے یہ سلامتی کونسل کو بھی اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیوں ماضی سے سبق سیکھنے سے قاصر رہتے ہیں اور بار بار ایک ہی غلطی دھرائے جاتے ہیں۔
ہمارے ملک کی ساری سیاسی جماعتیں صرف اور صرف اپنی بقاء کی خاطر سیاست کرتی ہیں اسکے لئے انہیں کسی سے بھی ہاتھ ملانا پڑجائے ملا لیتی ہیں۔ ہمارے ملک کے سیاست دانوں کو عوام صرف انتخابات کے دنوں میں یاد آتی ہے باقی دنوں میں تو یہ اپنی ہی دال روٹی میں سرگرداں رہتے ہیں۔
ملک کی سلامتی کا مسلۂ کیا صرف اور صرف فوج کا تو نہیں ہے ، پاکستان ایک اسلامی جمھوریہ اور ایٹمی قوت رکھنے والی ریاست ہے مگر دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں سیاستدان کرپشن زدہ ہیں اور اپنی کی گئی کرپشن کو ماننے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں اور اگر واقعی کرپشن زدہ نہیں ہیں تو پھر عوام سے کیوں چھپتے پھرتے ہیں۔ پھر یہ ادارے کیوں تباہ و برباد ہوتے جارہے ہیں، پھر کوئی بھی ہمیں منہ اٹھا کر جودل چاہتا ہے بولتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے ادارے اچھے ہیں ان میں کام کرنے والے لوگ قابل اور صلاحیتوں سے بھرپور ہیں مگر انہیں کام کرنے نہیں دیا جاتا انہیں کام کرنے کیلئے بھی ان سیاستدانوں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے جن کے اپنے مقاصد سب پر فوقیت رکھتے ہیں۔ جہموریت کا ضامن ادارہ پارلیمنٹ ہاوس کہلاتا ہے اوراس میں ہونے والے اجلاسوں میں شریک ہونے والے ممبران پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ان میں شرکت کریں تاکہ پتہ چلے کہ آخر حکومت اور حکومت مخالف کن سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ مگر اس جمہوریت کے علامت میں آنا ہمارے سیاست دان اپنی توہین سی کوئی چیز سمجھتے ہیں تو پھر اس نام نہاد جمہوریت کا کیا فائدہ ۔ اس ادارے میں ملک اور قومی مسائل تو کم زیرِ بحث آتے ہیں مگر ممبران کے ذاتی نوعیت کے مسائل پر بحث بھی ہوتی ہے اور یہ مسائل حل بھی ہوجاتے ہیں۔
دنیا میں دہشت گردی کی جنگ عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے اور پاکستان کا اس جنگ میں سب زیادہ نقصان اٹھانے والا ملک ہے ۔ اس جنگ کو عملی طور پر پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بہت جانفشانی اور منظم طریقے سے لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے فوج کا کردار بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے ملکی سلامتی کے فیصلے بغیر فوج کے نہیں کئے جاسکتے مگر سیاسی حکومت کا مزاج ہے کہ وہ سارے فیصلے خود ہی کر لے، اب پھر وہی محاذ آرائی کا ماحول۔ ہم پچھلے کچھ سالوں سے یہ سنتے آرہے ہیں کہ تمام ادارے ایک صفحہ پر ہیں یعنی کسی ادارے کی کسی ادارے سے کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ ہم سنتے آرہے ہیں کہ پاکستانی فوج، عدلیہ اور پارلیمنٹ ایک راستے کے مسافر ہیں۔ ان کے درمیان کسی قسم کی کوئی محاذآرائی نہیں ہو رہی۔ پاکستان میں چیف جسٹس آف پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف اور وزیرِاعظم یہ تین لوگ طاقت کا منباء سمجھے جاتے ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے سیاست دان اداروں سے محاذ آرائی ختم کردیں اپنا بے جا اثرو رسوخ دباو کی صورت میں ادروں پر نا ڈالیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو ملک سے نا صرف کرپشن کا خاتمہ ہونا شروع ہوجائے گا بلکہ میرٹ کی عمل داری بھی نافذ اعمل ہوجائے گی اور کوئی سیاست دان چاہے حکومت میں ہو یا پھر حزبِ اختلاف میں عدالت میں پیش ہونے سے عار محسوس نہیں کرے گا۔ملک کی بقاء کی خاطر ، ملک کی سلامتی کی خاطر اور ملک کے دوام کی خاطر اداروں کی بحالی کی خاطر ہمارے سیاستدانوں کو سیاسی انا کی قربانی دینی پڑے گی ورنہ اتنی بھاگ دوڑ کے بعد بھی کچھ نہیں بدلے گا۔