انتخابات سے قبل بڑی بڑی پراڈو، پجارو گاڑیوں اور یلغاری قافلوں کی صورت میں میدان میں اترنے والے افراد جب اقتدار میں آتے ہیں تو انہیں سرکاری قافلے بطور پروٹوکول مہیا کر دیئے جاتے ہیں۔ روزمرہ مشاہدات میں یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ جب کسی برسر اقتدار اہم شخصیت کا پروٹوکول گزرتا ہے تو ہماری ہی فورسز سڑکوں پر ہمیں ہتک آمیز رویوں کا نشانہ بناتی ہیں عوامی ٹیکسز سے تنخواہیں وصول کرنے والے ہاتھوں میں جدید گنیں پکڑے نوجوان جو یقینََا ہمیں میں سے ہوتے ہیں ان سیاسی شخصیات کے پروٹوکول کے گزرتے وقت جس رویے سے ہمیں سڑکوں سے ایک سائیڈ پر ہونے یا رکنے کا اشارہ کرتے ہیں اس سے ہمارے جوانوں کی معاشی مجبوریوں، حکمرانوں کے ذہنوں میں چھپی فرعونیت اور اپنی بے بسی، اوقات کا خوب اندازہ ہو جاتا ہے۔
لوگ چوریوں، ڈکیتیوں اور دیگر وارداتوں کا شکار ہورہے ہیں جبکہ پاکستانی سیکیورٹی ادارے شریف شہریو ں کو ہی خوفزدہ کرنے اورفرضی اجلاس اور بیانات جاری کرنے کے علاوہ کوئی کردار ادا نہیں کررہے۔اشیائے خوردونوش مصنوعی مہنگائی، ناجائز منافع خوری، کی نذر ہوگئی ہیںبجلی کی قیمتیں ہیں کہ لوگ بل دیکھ کر توبہ توبہ کرنے لگتے ہیں۔لوگ خودکشیوں کی طرف مائل ہورہے ہیں۔انصاف کے حصول کا معیار بدل گیا ہے کہیں اﷲ کی رضا منشا ء و مقصود نظر نہیں آتی چند بااثر خاندانوں اور ان کی اولادوں کی خوشنودی ہمارے ہاں وطیرہ بن چکا ہے۔افراتفری کا عالم ہے ہر شخص شارٹ کٹ کی تلاش میں ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ لوگ قیامت کیلئے جلدی مچا رہے ہیںجس سے کچھ بن نہیں پڑتا وہ اپنے ناموں کیساتھ جعلی عہدے لگاتا ہے ان عہدوں کی تشہیر کرتا ہے سیاسی افراد اور ان کی اولادوں کو خدمتگار ہونے کا یقین دلواتا ہے معاشرے کے سادہ لوح افرادسے لوٹ مار، کام نکلوانے کے عوض اپنی حیثیت کے مطابق کالا دھن اکٹھا کرتا ہے کہیں سے قرض لے یا کچھ اسی طرح جمع شدہ آمدن سے ان سیاسی اور بااثر افراد کی اپنے گھروں ، ڈیروں پر چند ساتھیوں کے ہمراہ دعوت کرتا ہے ان کیلئے چھوٹے موٹے تحائف کا بندوبست کرتا ہے اور پھر اس طرح اپنے تعلقات ایسے لوگوں سے بڑھا کر اپنے لئے تو مفادات حاصل کرلیتا ہے مگر ایساکردار اور اس کا سیاسی مہمان یہ نہیں جانتا کہ ایسے کردار اور رویے مہذب معاشروں کیلئے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں۔ اقتدارکی رسی کو مضبوطی سے تھام کر خود کو صالحین اور فرشتے سمجھنے والوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ وقت بہت بڑا منصف ہے۔
تاریخ کی عدالت میں کل جب ایسے لوگ مجرم بن کرسامنے آئیں گے تو ان کی معافی کیلئے التجا کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ تاریخ شاہد ہے جن لوگوں نے ہوس اقتدار سے ہٹ کر کسی گروہ، قوم یا ملک کیلئے خدمات سرانجام دیں دنیا ان کو اچھے لفظوں سے یاد کرتی ہے ۔ لوگ نسل در نسل ان عظیم شخصیات کے ممنون ہیں۔ ریاستیں ایسے طرز عمل کی زیادہ دیر تک متحمل نہیں ہوسکتیںجس کی پریکٹس ہمار ے ہاں معمول بن چکی ہے۔جمہوریت کے نام پر موجیں کرنے والے آمریت کے نام سے لوگوں کو بدظن کر کے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں ۔ حقیقت میں ایسے ادوار جنہیں یہ آمریت کے نام سے پکارتے ہیںان میں عام لوگوں سے انتقام اورانکی حق تلفی کا سلسلہ اتنا طاقتور کبھی بھی نہیں رہا جتنا جمہوری ادوار میں اسے عروج ملتا ہے سیاسی پشت پناہی رکھنے والے افراداثر ورسوخ سے مخالفین کو اپنے عتاب کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیںچھوڑتے ۔ برادری ازم کو پروان چڑھایا جاتا ہے چھوٹی سے چھوٹی پوسٹ پر اپنی برادری کے بندے کھپا کر کروڑوں کی تعداد میں عوام کو اپنے اندر چھپے آمر سے خوف دلایا جاتا ہے۔
Corruption
اداروں میں تعینات افسران جو زیادہ تر انہی سیاستدانوں اور جمہوریت کے پاسداروں کی اولادیں، بھتیجے، بھانجے، داماد اور رشتہ دار ہیں جنہوں نے اس عظیم دھرتی کے اقتداراور اختیارات کو گھر کی باندھی بنا رکھا ہے یہ افسران بھی صرف انہیں افراد کی سنتے ہیں جن کے پاس ان کے کسی باپ دادے، چاچے تایے یا مامے کا رقعہ ہو کوئی بڑی سیاسی سفارش ہو۔ کسی سیاسی شخصیت کے کارندے سے بھی اگر آپ کی اَن بن ہو جائے تو اس کے مقابلہ میں عام فرد کی جانوروں سی بھی حیثیت نہیں رہتی لوگوں کو چن چن کر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کام کیلئے انتظامیہ کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاسی وڈیرے ایک طرف ان کے خوشامدی شریف شہریوں کیلئے عذاب سے کم نہیں ہوتے مخالفین کو دبانے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ سیاستدانوں کو کرپشن کے گر سکھانے والے یہ خوشامدی معاشرہ میں موجود سادہ لوح لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے گھروں کے دیئے روشن رکھتے ہیں خواہ اس کے لئے انہیں ذلت اور گھٹیا پن کے آخری درجہ پر ہی فائز کیوں نہ ہونا پڑا۔
ایسے خوشامدیوں نے قوم کو چند خاندانوں کی غلامی میں جھونکنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اپنی تحریروں میں چند سیاسی شخصیات کو ملک وقوم کی تقدیر کا ضامن ٹھہراتے ہوئے ان کی اولادوں کا بھی تابعدار ہونے کا درس دیا جاتا ہے جبکہ با شعور ،باضمیر طبقہ بخوبی جان چکا ہے کہ ملک میں کئی عشروں سے کسی مخلص اور محب وطن لیڈر نے جنم ہی نہیں لیا۔ ان دنوںبلدیاتی انتخابات کا قوم کو خمار چڑھا ہوا ہے پاکستا نی قوم اکثریت میں اپنے لئے قبضہ گروپوں، چوروں ڈکیتوں ، رسہ گیروں کے معاون نا م نہاد معززین نئے چوہدریوںکو پروان چڑھانے میں مصروف ہے۔خود کو حقیر جان کر خودی کا جنازہ نکالنے والی عوام کی بڑی تعدادایسے ہی نام نہاد شرفاء کو ان سیٹوں پر منتخب ہونے کیلئے اس وجہ سے اہل سمجھتی ہے کہ تھانہ کچہری سے کام نکلوانا شریف آدمی کے بس کا تو روگ ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ کسی بھی علاقہ کے انتخاب کے موقعہ پر بیلٹ باکسز میں سے شرفاء کے مقابلہ میں نام نہاد شرفاء کے ووٹ عمومََازیادہ نکلتے ہیں۔لوگوں کے ضمیر کرپٹ ہوچکے ہیں اسی خاطر وہ معاشرہ میں قبضہ گروپ، فراڈیوں کے نام سے مشہور کرپٹ افراد کواعلیٰ عہدوں کا مستحق سمجھتے ہیں۔
ہمارے ہاں کسی بھی امیدوار کی طاقت اور قابلیت کا پیمانہ اس کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کو تصور کیا جاتا ہے۔ موقع محل کی مناسبت اور عوامی پسندیدگی کے تناظر میں ایک انتخاب جیت جانے والا اگلے انتخاب کے موقعہ پراپنے ہمراہ مسلح افراد کی تعداد میں اضافہ کرلیتا ہے ۔بلدیاتی انتخابات کا موقع ہے عوامی رحجانات کے مطابق ایسے امیدواروں نے خود کو مدمقابل امیدواروں سے نمایاں رکھنے اور رعب جمانے کی خاطر اپنے ڈیروں پر کرایہ کی بڑی بڑی گاڑیاں نمائش کیلئے منگوا لی ہیں۔تمام امیدواروں کی طرف سے حلقہ انتخاب کی عوام کیساتھ سلام دعا میں اضافہ ہوگیا ہے،امیدواروں کے مزاج پرس رویوں پر دل عش عش کر اٹھتا ہے میں تو کہتا ہوں کہ دہشت گردی کا الزام تھوپنے والے دنیابھر کے لوگوںکو پاکستانیوں کی سادگی کا معتر ف ہونا چاہیئے کہ اقتدار کیلئے انہی لوگوں کے انتخاب کو ترجیح دیتی ہے جو حالات کی نزاکت کے مطابق گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ان کی خواہشات کا گلا گھونٹ کر خود عیاشیاں کرتے ہیںاوراقتدار کے حصول کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
میری نظر میںاگر لوٹ مار اور کرپشن کا نام ہی عوامی خدمت ہے تو لوگوں کو اس خدمت کے برابر مواقع میسر آنے چاہیئں۔ مختلف قوانین کو سرے سے ہی ختم کر کے احتسابی اداروں کو تالے لگا دینے چاہئیں کہ ملک وقوم کا سرمایہ ضائع نہ کیا جائے اس سے دوہرے معیار انصاف کا سلسلہ بھی بند ہو جائے گا۔بہر حال اقتدار میں آکرعوامی مسائل سے بے نیاز ہوکر اختیارات کا عوام الناس کے خلاف استعمال کر نے والوں کاروز آخرت پر یقین پختہ ہونا چاہیئے مولانا فتح محمد اپنی کتاب ”گلشن اسلام ”میں لکھتے ہیںحاکم کیلئے تمام رعایا کی خبر گیری کرنا لازم اور ضروری ہے کیونکہ جس شخص کو اﷲ تعالیٰ اپنا نگہبان اور حاکم بنائے اور وہ حاکم رعایا کی خیر خواہی اورخیر اندیشی سے نگرانی نہ کرے تو وہ حاکم جنت کی خوشبو بھی سونگھ نہ سکے گاہر ایک چھوٹے اور بڑے حاکم سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا۔رعایا کیساتھ عدل وانصاف کا سلوک کیا جائے کیونکہ بروز قیامت بلحاظ قدر ومرتبت تمام بندوں سے بزرگ ترین وہی حاکم ہو گا جو نرم دل اور منصف ہوگااور تمام بندوں سے بدتر حاکم وہ ہو گا جو ظالم اوراحمق ہوگا۔ (اگر حاکم جابراور ظالم ہوتو اس کے ظلم اور گناہ کا بوجھ اس پرہوگا اور قوم کو صبر چاہیئے اور اگر حاکم عادل ہو تو اس کو اجر ملے گا اور قوم پر شکر واجب ہے۔