یہ بیماری تقریباً سارے سیاست دانوں میں پائی جاتی ہے۔حتی کہ کرخت قسم کے سیاستدان بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں۔اس بیماری کے جراثیم عام حالات میں سوئے رہتے ہیں۔اور الیکشن سے چند ماہ قبل اس کا حملہ شدت اختیار کر جاتا ہے۔سیاست دانوںکے منہ سے مٹھاس بھری باتیں کی بوچھاڑسے عوام شکر وشکر ہو جاتے ہیں۔ان کے جانے کے بعد ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے انگلیاں مٹھاس کے شیرے سے جڑ گئی ہوں۔وہی جانو مصلی جس کے پسینے کی بدبو سیاست دان صاحب کو میلوں دور سے ناک پر رومال رکھنے پر مجبور کردیتی تھی اور وہ بے چارہ ہمیشہ کتا اور کھوتا دا پتر جیسے القاب سے نوازا جاتا تھا۔الیکشن کی گہما گہمی میں اسی جانو مصلی کو مسند خاص پر بٹھایا جاتا ہے۔
اور سیاست دان صاحب اس کی خوشامد کرتے اگلی پچھلی باتیں بھول جاتے ہیں۔”اوئے تو ،تو میرا بھائی ہے۔میرا پتر ہے۔اوئے تائے سے ناراضگی کیسی۔اوئے ککڑ لا جانو چوہدری کے لئے”۔،عوام کے ان دنوں گھل مل جانے کے باوجود سیاست دانوں سے یہ بیماری عوام میں منتقل نہیں ہوتی۔ ہائی اور لوشوگر کا حملہ عموماً دو صورتوں میں ہوتا ہے۔گر پتہ چلے کہ مخالف آپ کے دھڑا دھڑ ووٹ خرید رہا ہے۔
یا پہلے پولنگ بوتھ پر اپنی جیت ڈھول کی تھاپ کے ساتھ ہائی شوگر کا حملہ شدت اختیار کر جاتا ہے۔جبکہ ہارنے والے سیاست دان کی شوگر لو ہو جاتی ہے۔دونوں سیاست دانوں کی تکلیف ایک ہے۔ایک کی شوگر ہائی اور دوسرے کی شوگر لو ۔ان دونوں صورتوں میں وہ چت لیٹے منہ میں زبان گھماتے ،خالی آنکھوں سے تیمار داروں اور آسمان کی جانب ٹکٹکی لگائے ہوتے ہیں۔ایک منہ میں ٹافی گھما رہا ہے اور دوسرا انسولین لے رہا ہے۔
دل کی بیماریاں سیاست چونکہ ایک پر خطر شاہراہ کا سفر ہے۔اس شاہراہ پر قدم قدم پر دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتی ہیں۔اس لئے سیاست دانوں میں دل کی بیماریا ں ایک عام مسلہ ہیں۔چونکہ الیکشن سے لے کر حکومت کی جبری برخاستگی تک وہ مسلسل ذھنی دبائو کا شکار رہتے ہیں۔ایک آمر کا خوف انہیں کسی پل پھولون کی سیج پر سونے نہیں دیتا۔حیرت کی بات ہے اس ذھنی تنائو میں اعلی پائے کے سیاست دانوں سے لے کونسلر لیول کے سیاست دان بھی شامل ہیں۔اس دبائو میں حکومتی سیاست دانوں کا پریشان ہونا تو سمجھ میں آتا ہے۔
Heart Diseases
اس تنائو کا شکار اپوزیشن کے سیاست دان بھی ہو جاتے ہیں۔اربوں روپوں سے الیکشن کھیل سے ان کی ”لاگت ”بھی پوری ہونے سے قبل ہی اگر انکی بساط لپیٹ دی جائے تو اس خوف سے ہائی بلڈ پریشر ،لو بلڈ پریشر ،سانس کا پھولنا، دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو کر بڑبڑاتی ہیں۔پھر نہ جانے دل کی کون کونسی بیماریاںاپنا گھر کر لیتی ہیں۔اس صورت میں مولانا فضل الرحمن کی طرح یا تو ”سٹنٹ”سے کام چل جاتا ہے۔اگر آمر کی وجہ سے طبیعت بگڑ جائے تو پھر لمبے چیر پھاڑ کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔
اسہال،دست ،پیچش،ہیضہ گھٹیا قسم کی یہ بیماریاں عوامی ہیں۔ان بیماریوں کا براہ راست تعلق عوام سے ہے۔واسا کی ایک ہی لائن سے وقت دونوں کام فراہمی آب،نکاسی آب بیک وقت لئے جاتے ہیں۔نکاسی آب کی سہولت سے تو سیاست دان مستفید ہو سکتے ہیں۔ان کا بس چلے تو اس کام کے لئے بھی کوئی سپیشل طیارہ ہوتا جو آواز کی رفتار سے سفر کرتا اور وہ چند ہی منٹوں کسی یورپین ملک میں ”فارغ” ہو کر واپس آ جاتے۔۔چولستان کے جوہڑ ہوں یا گائوں کے گندے تالاب جن میں عوامی انسان نما جانور اور جانورایک ہی گھاٹ اور گھونٹ، گھونٹ پانی پیتے ہیں۔اس لئے انسان نما عوامی جانوروں میں ان بیماریوں کی بہتات ہے۔جبکہ سیاست دانوں کا تعلق خواص سے ہوتا ہے ۔وہ فرانس کا پانی یا منرل واٹر پیتے ہیں۔اس لئے یہ گھٹیا قسم کی یہ بیماریاں ان کو گود نہیں لے سکتیں۔
ہیپا ٹائیٹس۔اے،بی،سی تا زیڈ عوام کا تعلق چونکہ براہ راست غلاظت سے ہوتا ہے۔اسی وجہ سے یہ بیماریاں بھی عوامی ہیں۔ان بیماریوں کے وقوع پذیر ہونے کی ذیادہ تر وجوہات میںناقص غذا،عوام کھاتے ہیں۔ناقص ماحول،عوام کا ہے۔ناقص پانی ،عوام کے لئے ہے۔فٹ پاتھی نائیوں سے شیو،عوام بنواتے ہیں۔فٹ پاتھی دندان سازوں سے دانت ،عوام نکلواتے ہیں۔
Hepatitis Diseases
ذیادہ تر سیاستدان چونکہ کے باہر کے ممالک میں پاکستان کے لئے زرمبادلہ کے حصول کے لئے دن رات انتھک محنت کرتے ہیں۔یہ عوام جن کا کام صرف اور صرف شک ہے۔ان دوروں کو نہ جانے کیوں شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔چونکہ قوم کا درد سیاستدانوں کی گھٹی میں پڑا ہے۔اس لئے ان کا ذیادہ تر وقت باہر ہی گزرتا ہے۔اس لئے یہ فٹ پاتھی بیماریاں ان سے اتنی ہی دور ہیں جتنی دور الیکشن کے بعد ان سے موجو مسلی ہو جاتا ہے۔
دماغی امراض دماغی امراض تقریباً سارے سیاست دانوں میں پائے جاتے ہیں۔حتی کہ کونسلر کا اکیشن لڑنے والا بھی مستقبل میں وزیر اعظم کے خواب دیکھتا ہے۔دماغی امراض کی بہت سی شاخیں ہیں جن میں سب سے گھٹیا شاخ یہ ہے کہ تقریباً ہر سیاست دان کی خواہش ہوتی ہے کہ موت آنے سے قبل اس سے کوئی کام لے لیا جائے تا کہ جنازہ تو ذرا دھوم دھام سے نکلے۔اس سلسلے میں بہت سے سیاست دان درپردہ ”وہ ”سے رابطے میں رہتے ہیں۔ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ”وہ” ان سے خالی اشٹام پر انگوٹھا لگوا لے قبل اس کہ کوئی اور انگوٹھا لگا ّئے۔
آنکھوں کی بیماریاں دور وزارت میں موجو مصلی کی شکل دھندلا جاتی ہے اور اگر صاحب کبھی رستے میں مل جائے تو موجو مصلی کو گاڑی کے ٹائروں سے اٹھنے والی مٹی کی دھول ہی ملتی ہے۔صاحب تو زن سے گزر جاتے ہیں۔ ہارنے کے بعد آہستہ آہستہ سیاست دان کو سبھی دھندلائی ہوئی ووٹروں کی شکلیں یاد آنے لگتی ہیں۔ الیکشن کے دوران اپنے حلقہ میں آمد پر حلقے کے لوگ ایک دوسرے سے حیران ہو کر بے ساختہ پوچھتے ہیں۔”صاحب !”شعاعیں ”لگوا آئے”۔ان بیماریوں میں ذیادہ تر ہارنے والے سیاست دان مبتلا ہوتے ہیں۔ ہارنے والا سیاست دان دوبارہ عوام کے بہت ذیادہ قریب ہو جاتا ہے۔