تحریر : اسلم انجم قریشی کھبی ہم دیکھا کرتے تھے کہ بلدیہ اعلیٰ حیدرآبادکی جانب سے آوارہ خون خوار کتوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے باضابطہ طور پر ایک مہم شروع کی جاتی تھی اور اس مہم کے ذریعے شہر کے علاقوں گلیوں اور محلوں سے ان خون خوار آوارہ کتوں کا صفایا کردیا جاتا تھا مگر اب اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی جس کے باعث شہر میں جگہ جگہ آوارہ خونخوار پاگل کتوں کی یلغار نظر آرہی ہے اور ان کتوں کی دہشت و خوف سے شہر کے لوگوں میںسخت تشویش پائی جارہی ہے یقینا لوگوں میں اس قسم کی فکرفطری ہے جس سے انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے اور جبکہ کئی جگہ پر سگ گزیدگی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔
ایک ایسا واقعہ جس کا اس وقت بھی ذکر کرتے ہوئے دکھ ہوتا ہے ا یک شخص کا اکلوتا بیٹا ان آوارہ خونخوار پاگل کتوں کی بھینٹ چڑھ گیا ۔واقعہ کچھ اس طرح کا ہے حیدرآباد کے علاقے نورانی بستی کا رہائشی ایک سماجی کارکن اقبال جس کا ایک ہی لڑکا تھا اور وہ لڑکا ملٹی نیشنل دوائی کی کمپنی میں بطور میڈیکل ریپ میں کا م کرتا تھا۔ معمول کے مطابق موٹر سائیکل پر سواراقبال کا لڑکا میڈیکل ریپ رات کو واپسی گھر کی طرف آرہا تھا کہ پُل کے کونے پر کچرا کونڈی کاانبار لگا ہوا تھا جہاں پر ان آوارہ خونخوار پاگل کتوں نے اپنی آماجگا ہ بنارکھی تھی اچانک خو نخوارکتوں نے ایک دم میڈیکل ریپ پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگیا اور کچھ دن بعد اس لڑکے نوجوان میڈیکل ریپ کی پاگل پن جیسی حالت ہوگئی اور دن بدن اس کی حالت بگڑتی چلی گئی اور اس طرح لڑکے میں سے کتے جیسی چیخنے بھوکنے کی آوازیں آنے لگی اس لڑکے کو اس کے گھر والوں نے ایک کمرے میں بند کردیا اور پھر کچھ ہی دنوں بعد بالآخر کار سماجی کارکن کا اکلوتا بیٹا نوجوان میڈیکل ریپ جو سگ گزیدگی کا شکار ہوا تھا نے چیخ چیخ کرتڑپ تڑپ کردم دے دیا اوراس طرح وہ اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔
ایک دفعہ میری ساتھ بھی سگ گزیدگی کا واقعہ پیش آیاتھا۔ میں کسی جگہ سے رات کے وقت گزر رہا تھا وہاں پر ایک کتیا جوکہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو لئے بیٹھی تھی میرابے خیالی میں پائوں ان کے اوپر آگیا اور ا س کتیا نے ایک دم لپک کرمیرے پائوں کی ایڑھی پر چک بھر لیا جس سے میرے پائوں کی ایڑھی شدید زخمی ہوگئی میں فوری طور پر کتیا کے کاٹنے جانے کے سبب اس کے بچائو کے لیے سول ہسپتال پہنچا جہاں ڈاکڑوں نے ایک انجیکشن میرے پیٹ میں لگایا اس طرح میں نے روزانہ بلا ناغہ چودہ دن تک انجیکشن لگوائے تھے کیونکہ آج سے پچیس سال پہلے اسی طرح انجیکشن لگائے جاتے تھے تاہم اب تو سات انجیکش لگائے جاتے ہیں اور وہ بھی بعض وقت ہسپتال سے ناپید رہتے ہیں ابھی حال ہی میں میرے پڑوسی کا ایک نو عمر لڑکا فیضان جسے کتیا نے اس قدر کاٹا کے اس کے پائوں کی پنڈلی کا ایک حصہ بری طرح متاثر ہوا جسے دیکھا نہیں گیا۔ اور بھی اس سگ گزیدگی کا شکار ہونے والے افراد جو اب اس دنیا میں نہیںرہے انتہائی اذیت سے دوچار اور تکلیف کے مراحل سے گزرے جب ان واقعات کا ذکر نظروں کے سامنے سے گزرتے اورذہن میں گردش کرتے ہیں تو ایک خوف سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔بلدیہ اعلیٰ حیدرآبادکی غفلت اور لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ اب تک اس کتا مار مہم کا آغاز نہیں کیا گیاجو کہ لمحہ فکریہ ہے ۔
یہ تو ہے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کی نااہلی ۔مگر ہم گذشتہ کئی عرصے سے سیاست دانوں کی جانب سے ملک میںکتا مار مہم جو کہ زور شور سے جاری ہے اس مہم میں نام نہاد سیاست دانوں کی گھٹیا سوچ نے پاکستانی معاشرے کوعجیب وغریب جیسی صورتحال سے دوچار کردیاہے۔ عوام میں عدم اعتمادی کی فضا پائی جانا لمحہ فکریہ ہوگئی ہے ۔
ان نام نہادسیاست دانوں کے منافقت جھوٹ جیسے رویوں نے ایک مثبت سوچ کو ہر سطح پر مجبور کردیا جس کے سبب عوام انتہائی بے بسی کے عالم سے گزر رہی ہے ۔ ان مکار، فریبی، دھوکے باز نام نہاد سیاست دانوں نے قوم کے وقار کو بلند کرنے کے بجائے ان کے لیے تذلیل کا ساماں پیدا کردیا گیا ان نام نہاد سیاست دانوں کی کتا مار مہم نے شریف النفس انسان کے سرشرم سے جھکا دیے ۔اس کے باوجود ان نام نہاد سیاست دانوں کی ہٹ دھرمی کا سلسلہ جاری ہے جس کو آئے دن ان کی کتا مار مہم میں بے ہودہ و جاہلانہ گفتگو اور مکروہ چہروں کو پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں دیکھا اور سنا جاتا ہے۔ تاہم عوام کو ان کی کتا مار مہم سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن عوام جو کہ وہ اس معاشرے کا حصہ ہیں اس کمزوری کے باعث یہ نام نہاد سیاست دان گھٹیا ،مکار ،فریبی ،دھوکے باز ،بھیڑیے ظالم ،اپنی کتا مار مہم کو زور شور سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جس میں تہذیب کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں اخلاقیات کا جنازہ نکالا جارہا ہے نفرت ،منافقت ،جھوٹ ،بے غیرتی بے حیائی کو فروغ دیا جارہا ہے جن کے کردار کبھی بہروپیئے بن کر کبھی بھیڑیے کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں اور ظلم و جبر تو ان کا مشغلہ ہے جب چاہے جیسے چاہے عوام کو بے وقوف بنانا ان کے لیے مشکل کام نہیں اب سوچنا یہ ہے کہ ان بدکردار نام نہاد سیاست دانوں سے چھٹکارہ کیسے حاصل کیا جائے اس کے لیے اب ہمیںکمر بستہ ہو کر ان اکابرین کی مشعل راہ پر چلنا پڑیگا جنہوں نے اندھیروں میں ایک اعلیٰ شعوری علم کے دئیے روشن کیے ان کا علمی دنیا میں کامل عبور تھا یہ عظیم رہنما علم دنیا کے اُفق پر روشن ستارہ بن کر اُبھرے یہ علم دوست اور متقی انسان تھے۔
انہوں نے اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے مسلمانوں کی آزادی کے لیے عملی سیاست میں بھرپور بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہ اخلاص کا مجموعہ تھے انہوں نے ظمت کدے میں چرغ روشن کیے یہ اہل علم مخلص بے باک خادم بن کر سیاسی حالات کے پیش نظر قوم کی فلاح بہبود کی خاظر سیاسی سرگرمیوں میں اصولوں کی پاسداری کی ان کے اندر وطن عزیز کی محبت ان کی رگ رگ میں رچی بسی تھی اور ملک سے بدعنوانی اور حکمرانوں کی زیادتیوں کا خاتمہ کیا ان غازیوں اور شہیدوں کی ہمت وجرآت دلیری اور بہادری ان کے عظیم لازوال کارنامے ہماری تاریخ کا سنہری باب ہے جو کہ خراج عقیدت و خراج تحسین کے لائق ہیں وہ سیاسی بصیرت کے پیکر سچی حقیقی انقلاب کے علمبردار جنہیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے تو دل باغ باغ اورذہن ترو تازہ ہوجاتا ہے اور پھر سے یہی جذبہ ہمیں ہمت و استقلال کا حوصلہ پیدا کرتا ہے کہ اُٹھ کھڑے ہوجائو اور ان تمام نامساعد حالات سے نمٹنے کے لیے باطل قوتوں کے خلاف سِینہ سِپر ہوجائیں تب ہی ان بدکردار نام نہاد مفاد پرست سیاست دانوں کی سیاست کا خاتمہ ممکن ہے۔ تحریر کا اختتام معروف شاعر رئیس امروہی ،حفیظ جالندھری،پروین شاکر کے اس اشعار سے رئیس امروہی ۔ ہر چند ناز عشق پہ غالب نہ آسکے کچھ اور معرکے ہیں جو سر کررہے ہیں ہم ۔ حفیظ جالندھری۔ ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے تم نے ہمیں بھُلا دیا ہم نہ تمہیں بھُلاسکے
پروین شاکر۔ ہاتھ کاٹ دئیے کوزہ گروں کے تم نے معجزہ کی وہی اُمید مگر چاک سے ہے