سیاستدان یا غنڈے؟

Vote

Vote

سیاستدان عام عوام کے نمائندے ہوتے ہیں جو اسی عوام کی ووٹ سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس عام لوگوں کو اپنے لیڈر مانتے ہوئے پاکستان کی سادہ لاح اور غریب عوام انہیں اپنے ووٹ دے دیتی ہے کیونکہ الیکشن کے دنوں میں یہ لوگ ووٹ مانگنے کے لیے لوگوں کو سبز باغ دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے مگر الیکشن کے بعد یہ اپنے علاقوں میں نظر ہی نہیں آتے کیونکہ یہ لوگ صرف ووٹ لینے کے پُجاری ہوتے ہیں۔ یہ سیاست دان ووٹ حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں لگا دیتے ہیں جیسے ان کے متعلق مشہور ہے کہ سیاستدان ووٹ مانگتے ہوئے گدھے کو بھی باپ بنانے کو تیار ہو جاتا ہے۔

مگرالیکشن کے بعد ان لوگوں کے عوام کے ساتھ رویے ہی بدل جاتے ہیں اور الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کو بعد عوام کو یہ سیاستدان انسان سمجھتے ہیں نہیں ایسی چند مثالیں ملاحضہ فرمائیں: سب سے پہلا واقعہ میڑٹ اور صرف میرٹ کی باتیں کرنے والے پاکستان کے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف ک لاڈلی بیٹی رابعہ اور داماد عمران کا ہے:7 اکتوبر 2012 کو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی بیٹی رابعہ عمران کی طرف سے ڈیفنس کے بلاک ‘ٹی’میں واقع بیکری ‘سویٹ ٹوتھ’کے ایک ملازم عرفان کو صوبے کی ایلیٹ فورس کے جوانوں سے تشدد کا نشانہ بنایامگر اس پر میڈیا میں یہ سوال اٹھایا گیا اہلکار تو سرکاری ملازم ہیں ان کو انکے ”باس” کی طرف سے جو حکم ملا وہ انہوں نے بجا لایا اصل بات تو اصل ملزموں کے خلاف کارروائی کرنے کی ہے۔

جس پر شہباز شریف کی طرف سے انکے کارناموں کی تشہیر کیلئے قائم محکمہ ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز پنجاب کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا کہ وزیراعلیٰ نے ہمیشہ قانون کی حکمرانی قائم کی ہے اور انہوں نے پولیس کو اپنے داماد اور رابعہ کے شوہر علی عمران کو شامل تفتیش کرنے کی ہدایت کی ہے اس بیان کے بعد علی عمران نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا، حالانکہ علی عمران کیخلاف کوئی ثبوت ہی نہ تھا کہ وہ بھی بیکری ملازم پر تشدد میں ملوث ہیں۔ واقعہ کے حوالے سے کلوز سرکٹ ٹی وی کی جو فوٹیج سامنے آئی تھی اس میں وزیر اعلیٰ کی بیٹی رابعہ دھمکیاں دیتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ بعد میں ایلیٹ فورس کے جوانوں سمیت جو لوگ بیکری پر حملہ آور ہوئے علی عمران ان میں بھی نہ تھے۔

Ali Imran

Ali Imran

یہ وہ موقع تھا جب ٹی وی چینلز اور اخبارات نے علی عمران کی بھرپور کوریج کی کہ وزیراعلیٰ نے قانون کی حکمرانی قائم کرتے ہوئے اپنے داماد کو عدالت کے ذریعے جیل بجھوا دیا اس کے ساتھ ہی علی عمران کے وکلا نے ضمانت کی درخواست بھی دائر کر دی، عدالت میں وکیل نے دلائل دیئے کہ علی عمران کیخلاف پولیس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں اس لئے ضمانت پر رہا کیا جائے، پولیس کی طرف سے تحقیقاتی رپورٹ میں علی عمران کو بے گناہ قرار دیدیا گیا، بیکری مالکان یا ملازم عدالت میں پیش نہ ہوئے جس کے بعد عدالت نے علی عمران کو پچاس ہزار کے مچلکوں کے عوض رہائی کا حکم دیدیا۔

اس طرح مبصرین کے مطابق شہباز شریف نے اپنی ‘امیج بلڈنگ’کا ایک کامیاب ڈرامہ سٹیج کیا جس کے تحت ان کی بلے بلے بھی ہو گئی اور واقعہ کی اصل ملزمہ ان کی بیٹی رابعہ پر کوئی آنچ بھی نہیں آئی۔غریب ملازم پر اتنے بڑے ظلم ہونے کے باوجود میاں صاحب نے تحقیقاتی رپورٹ دیکھنے کے بعد یہی بہتر جانا کہ بیٹی اور داماد کو بچاتے ہوئے رپورٹ کو ہوا میں اُڑا دیا جائے جس کے بعد یہ کیس ٹھپ ہو گیا۔

اب میں ایک دل دہلا دینا والا تازہ واقعہ بیان کرتا ہوں اور اس میں بھی پاکستان مسلم لیگ کی ارکان اسمبلی ملوث ہیں۔ چند د دن پہلے موٹروے پر سفر کے دوران رکن پنجاب اسمبلی نگہت شیخ دیر سے پانی پلانے پر بس ہوسٹس پر برس پڑی اور ساتھ ہی بیچاری ہوسٹس کے منعہ پر تھپڑ ما دیاجس کے بعد چوری اور اوپر سے سینہ زوری کا محاورہ سچ کرتے ہوئے ساتھ واقعہ ڈیرا پولیس سٹیشن سے پولیس طلب کر کے بس ہوسٹس اقراء کیخلاف دفعہ 506 کے تحت مقدمہ درج کرا دیا جس کے بعد پولیس نے بس ہوسٹس کو اپنی تحویل میںلے لیا اور پھر چھوڑ دیا۔

بس لاہور پہنچنے پر ہوسٹس اقراء نواز نے بتایا کہ انکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، ایم پی اے پہلے تھپڑ مارے بعد میں تھانے پہنچا دیا، ایم پی اے نے گالیاں دیں اورذات پر بھی کیچڑ اچھالا۔ بس کے مسافروں کا کہنا تھا کہ ایم پی اے کا سلوک ناروا تھا انھوں نے بس ہوسٹس کی توہین کی۔

یہ تھپڑ ایک عوارت کا دوسری عورت کے منہ پر نہیں بلکہ محنت کو عظمت سمجھنے والی بیٹی کے منہ پر طمانچہ تھا، معلوم نہیں نگہت شیخ کو اس وقت اپنی بیٹی یاد کیوں نہ آئی لیکن کیسے آتی؟ اگر اسے اپنی بیٹی اور اس سے شفقت و محبت کا احساس ہوتا تو وہ نگہت ناصر شیخ ہی رہتی، نگہت شیخ تو نہ بنتی؟ پر اسے تو تھپڑ پر بھی سکون نہ ملا۔ شیرنی تو تھی ہی پھرتی دکھائی پولیس کو فون کیا اور بس اقتدار کے زور پر تھانے لے گئی جہاں انسانیت اور ماں کے جیسی ریاست کے سامنے حکومت غالب آگئی اور مقدمہ بھی درج ہو گیا۔

Shahbaz Shrif

Shahbaz Shrif

اِس اتنے بڑے واقعہ کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ رکن اسمبلی اور شہری برابر ہیں، قانون سب کیلئے ایک ہے۔ مگر انکوائری کے بعد اب شہباز شریف صاحب کو معلوم ہو گا ہے کہ اس سارے واقعے کی ذمہ دار مسلم لیگ نواز کی رکن نگہت شیخ ہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں شہباز شریف کیا ایکشن لیتے ہیں۔ میرے خیال میں تو اُن کا ایکشن پیکری ملازم پر تشدد کیس کی طرح ہو گا۔

جیسے اس بیچارے ملازم کو ڈرا دھمکا کر چپ کرا دیا گیا تھا اور وہ اسی ڈر سے عدالت میں پیش ہی نہیں ہوا اور اس سے زیادہ میاں صاحب ایکشن لے بھی نہیں سکتے اور انکوائری رپورٹ کو ہوا میں اڑا دیں گے۔اس واقعے کے متعلق سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے ایک ٹاک شو میں کیا خوب کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی نگہت شیخ کے منہ پر وہی تھپڑ مارا جائے جو اُس نے بیچاری بس میزبان کو ماڑا۔

قارئیں کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ان لوگوں کو اپنا نمائندہ منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں مگر یہ لوگ ہمارے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اس کا آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا۔ اسی طرح سرگودھا سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اسلم مڈیانہ نے ایک غریب سکول ٹیچر پر تشدد کر کے اُس کی ٹانگیں توڑ دی۔ اس کے بعد اسلم مڈیانہ کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا اور گرفتاری بھی ہوئی مگر افسووس ہمارے ملک میں قانون شائد اندھا ہے اسی لیے طاقتور اور وڈیرے کو جرم کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے جبکہ عام آدمی کو جرم کی سخت سے سخت سزا دی جاتی ہے۔

اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی رہنما وحیدہ شاہ نے بھی نگہت شیخ کی طرح ایک پریزائیڈنگ آفیسر لیڈی کو تھپڑ مارا تھا جس کے بعد وہ کیس سپرم کورٹ میں زیر بحث رہا۔ یہ لوگ 18کروڑ پاکستانیوں کی نمائندگی کیسے کر سکتے ہیں؟ اِن لوگوں کا عام شہریوں کے ساتھ رویہ تو دیکھیں یہ پڑھے لکھے جاہل لوگ ہیں۔

ان کو کیا علم کہ حلاھ کی روزی کیسے کمائی جاتی ہے جیسے وہ بیکری ملازم سارا دن مزدوری کر کے کماتا ہے، جیسے سرگودھا کا وہ ٹیچر سارا دن پڑھاتا ہے اور جیسے بس ہوسٹس اقرا سارا دن بس میں مختلف شہروں میں مسافروں کی میزبانی کر کے حلال کی روزی کماتی ہے۔ ان سیاستدانوں نے کام کر کے حلال کی روزی کمائی ہو تو انہیں معلام ہو کہ کیسے حلال روزی کمائی جاتی ہے۔ یہ تو غریب کا خون چوس کر عیاشی کی اندگی گزارتے ہیں

Furqan

Furqan

تحریر: محمد فرقان