آج کے اپنے موضوع پر لکھنے سے قبل میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں جیساکہ میں پہلے بھی اپنے کالموں میں متعدد مرتبہ لکھ چکاہوں کہ میرا واسطہ کسی بھی سیاسی و مذہبی یا لسانی جماعت سے نہیں ہے، اور نہ کبھی رہا ہے اور اِسی طرح آئندہ بھی نہ کبھی کسی سے ہو گا، بس میں تو ایک محبِ وطن پاکستانی ہوں، بس میں تو اتناہی کرتاہوں،جو دیکھتاہوں، جوسوچتاہوں، وہ صفحہ ء قرطاس پر بکھیرکر لوگوں تک پہنچادیتاہوں،اگرکبھی کوئی میرے لکھے پر ناراض ہوتو یہ سمجھ کر درگزرکردے کہ یہ کسی دیوانے کا خیال ہے مگر پھر بھی میں اتناضرورکہوں گا کہ وہ میرے لکھے پر سوچے ضرورکہ ایک دیوانہ کیا سوچ رہاہے..؟ اور یہ مُلک اور قوم کی بہتری کے لئے کیا چاہتاہے…؟
Bilawal Bhutto
بہرحال…! ویسے توساراپاکستان ہی محبتوں اور اخلاص کا خزینہ ہے مگریہ میری خوش نصیبی ہے کہ میراتعلق سرزمینِ پاکستان کے صوبے سندھ سے ہے جی ہاں..! صوبہ سندھ وطنِ پاکستان کی وہ خوبصورت دھرتی ہے جہاں قدم قدم پر محبتیں نچھاوڑ کی جاتی ہیں، اوراِس سرزمین کی سب سے بڑی اور سب سے اچھی خُوبی یہ ہے کہ اِس سرزمین پر اپنے پرائے سب کے گلے شکوے بھلاکر سب کو گلے لگا لیا جاتاہے، یہاں کی مہمان نوازی صدیوں سے اپنی مثال آپ ہے،ایسے میں، میں یہ چاہتاہوں کہ میری اِس دھرتی پر نفرتیںکبھی بھی اپناڈیرانہ جمانے پائیں،اور میری دھرتی میں محبتیںپروان چڑھتی رہیں،اور آنے والے دِنوں میں یہ ساراکام پاکستان پیپلزپارٹی کے جوان سال خُوبروسربراہ بلاول بھٹوزرداری وزارت عظمی ٰ کا منصب سنبھال کر بحیثیت وزیراعظم اپنے دستِ مبارک سے کریں، مگر اِس کے لئے یہ ضروری ہے کہ اِس سے قبل بلاول بھٹو زرداری اپنی پارٹی کی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھاتے ہوئے سندھ کی دھرتی میں سبھوں کو اِن کے حقوق دلاتے رہیں اور آپس میں محبتیں بانٹتے رہیں اور سندھ کی دھرتی کو اُوج ثریا سے بھی آگے لے جائیں(آمین)۔
اِسی کے ساتھ ہی اَب میں اپنے آج کے موضوع کی طرف آتا ہوں کو نیل کا کہنا ہے کہ ”جو بات اخلاقی طور پر غلط ہواِ سے سیاسی طور پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا ہے”مگرآج تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمارے یہاں کے سیاستدان ہر غلط بات کو سیاسی زاویئے سے دیکھتے ہیں اور اِسے اخلاقی طور پر درست قراردینے میں کولھوکا بیل بن جاتے ہیں۔ ایسے میں اَب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ سیاستدانوں کے قول و فعل کے تضادات کی طرحاِن کے دل ودماغ بھی مختلف ہوتے ہیں، جو جب اور جدھر جہاں اپنی اپنی سمتوں میں چل پڑتے ہیں، پھر بھلے سے قوم کا بیڑا غرق ہویا مُلک تباہ ہو جائے ،اِنہیں اِس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے کہ اِن کی اِس غلطی پر دنیا اِنہیں کیا کہے گی؟
یہ تو ساری قوم اچھی طرح سے جانتی ہے کہ ہمارے مُلک کے اکثر (واضح رہے کہ ابھی میں بیشترکی بات نہیں کر رہا ہوں)سیاستدانوں کے ضمیر وں کی کیا حالت ہے..؟ اور قوم اِن کے ضمیروں کو کس طرح کے مخرُب اخلاق القابات سے گاہے بگاہے یادکرتی ہے …؟یعنی یہ کہ اِن کے ضمیروں نے اِن سے جو کراناہوتاہے، وہ اِن سے کروالیتاہے،اور سیاستدان اِسے کرنے پرایسے ہی آمادہ ہوتے ہیں ، جیسے مدتوں بعد ملاقات کے بعد کوئی محبوبہ اپنے عاشق کے ساتھ ڈیٹ پر چلی جاتی ہے، آپ سوچیں کہ تب اِس کے جذبات کی کیا کنڈیشن ہوتی ہے، جو شاید اِس کے بھی بیان سے باہر ہو، ہمارے سیاستدان بھی یکدم ایسی کیفیات سے دوچارہوتے ہیں، اوراِنہیں بھی اپنے اُسی ضمیر کے مطابق وہ سارے کام کرنے ہوتے ہیںابھی جس ضمیر کا میں مندرجہ بالاسطور میں تذکرہ کرچکا ہوں، سو جب ہمارے یہ سیاستدان اپنے ضمیرسے ملنے والے احکامات پر عمل پیراہوتے ہیں تواِنہیں دوران کچھ سُوجھائی نہیں دیتاہے کہ وہ جو کچھ کرنے جارہے ہیں وہ نہ صرف اِن کے لئے بلکہ مُلک و قوم کے لئے بھی ٹھیک نہیں ہے ، مگربس اِنہیں تو اپنے ضمیر کے احکامات کی تکمیل کیجلدی پڑی ہوتی ہے گو یہ اِس بناپر اپنا ساراسیاسی کئیرداؤ پر لگابیٹھتے ہیںاور وہ کچھ کرگزرتے ہیں جس کے بعد اِن کے ہاتھ سوائے پچھتاوے اور سر پر ہاتھ رکھ کر رونے اورہاتھ ملنے کے کچھ نہیں آتاہے۔
شاید اِسی لئے تو سر ہیرلڈولسن کایہ کہناہے کہ” سیاست میں ہرہفتہ ایک اہم ہفتہ ہوتاہے”آج اگرچہ اِس سے انکارممکن تو نہیں ہے ،مگریہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر مُلکی سیاست میں ہر ہفتہ ایک اہم ہفتہ ہوتابھی ہو،میں اِس لئے یہ بات کہہ رہاہوں کہ کم ازکم پاکستان میں تو ایک ہفتہ بہت دورکی بات ہے ہمارے یہاں تو ہر ایک گھنٹے کے بات ہر اگلاگھنٹہ اہم ہوجاتاہے، اِس کا اندازہ ہمیںاپنے سیاستدانوں کے دل اور دماغ کی تضادات سے بھری ہیجانی اوراضطرابی کیفیات سے ہوتاہے، جو کسی کی تقریراور بیان کوسیاق وسباق سے ہٹاکر پیش کردیتے ہیں جو مُلک کے سیاسی و اخلاقی اور معاشی و فرقہ وارانہ ملی یکجہتی کے ماحول میں بگاڑپیداکرنے کا سبب بھی بنتاہے۔ جبکہ یہاں ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمارے سیاستدان موقعہ پرستی کی سیاست کو خیر باد کہیں اور حقیقت پسندانہ سیاست کی بنیاد رکھتے ہوئے خود کو اِس سانچے میں ڈھالیں جیسا اُصولی سیاست کا وطیرہ ہے، اور سیاستدان اپنے دل اور دماغ کو اپنے ضمیرکے تابع بنانے کے بجائے، ضمیر کو دماغ اور دل کے انڈر کنڑول کریں، اور اپنی عقل کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے اپنے مُردہ اور بے حس ضمیرپر محبت کی میٹھاس کا شیرہ لگائیںاوراِسے مُلک و قوم کی تعمیروترقی اور اِس کی خوشحالی جیسی سوچوں سے مزین کریں اور اِسے اِنسان اور عالمِ اِنسانیت کے لئے کارآمدبنائیں۔
Azam Azim Azam
تحریر: محمداعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com 03312233463