تحریر : میر افسرامان، کالمسٹٹ ہم نے اپنے دو دن پہلے کے کالم” اقتصادی راہداری کو متنازہ نہ بنائیں ”میں نواز شریف صاحب سے درخواست کی تھی کہ ملک کا حکمران ہونے کے ناتے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسئلے کو حل کریں ۔جیسے خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں صوبائی حکومتیں بنانے میں بڑے پن کا مظاہرہ کیا تھا۔ ایسا ہی ہوا نواز شریف صاحب نے اقتصادی راہداری کو متفقہ بنانے کے لیے دوسری اے پی سی بلا کر تمام صوبوں کو مطمن کیا۔
نواز شریف صاحب نے کہا کہ اقتصادی راہداری روٹ میں تمام علاقے شامل ہونگے ، کوئی چیز چھپائی نہیں جائے گی، منصوبے پر متحد ہو کر آگے بڑھنا چاہیے۔آئندہ سال کے بجٹ میں رقم مختص کر کے کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔ ورکنگ گروپ تشکیل ،منصوبے کے بروقت تکمیل کے لیے ایک کمیٹی بھی بنائی جائے گی۔قومی امور پر سب کا ایک ہونا اچھی روایت ہے۔چین کی دوستی سب کے لیے ہے۔ چین کو پیغام دینا ہے کہ اقتصادی راہداری پر پوری قوم متفق ہے۔
Nawaz Sharif
اقتصادری راہداری تاریخ کا مثالی منصوبہ ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ دنیا کے ایک بڑے اقتصادی پروگرام جس سے پاکستان کے تمام صوبوں کو فائدہ ہو گا حکومت کی طرف سے بلائی گئی دوسری اے پی سی میں اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے۔ بے شک اس کا کریڈٹ نواز شریف صاحب کو ملنا چاہیے۔ پتہ چلا ہے کہ مغربی روٹ حسن ابدال ، میانوالی،ڈیرہ اسماعیل خان ،ژوب سے گوادر کے روٹ کا انتخاب کر لیا گیا اور اسے پہلے مکمل کیا جائے گا۔ یہ روٹ چین کو بھی سوٹ کرتا ہے یہ راستہ خنجراب سے گوادر تک قریب ترین راستہ ہے اس سے چین کو گوادر تک اپنا مال پہنچانے میں کم تر خرچہ اور کم تر وقت صرف کرنا پڑے گا۔دو راستے دوسرے بھی زیر بحث آئے تھے۔
سنٹرل اور ایسٹرن جس پر عمل کرنے سے پاکستان کے پہلے سے موجود انڈسٹریل زون میں مزید ترقی کے راستے کھولیں گے اور پاکستان ترقی کرے گا۔ ٣٤ ارب ڈالر کی سرمایا کاری توانائی کے شعبے میں کی جارہی ہے۔توانائی کے سب سے زیادہ منصوبے سندھ میں لگائے جائیں گے ۔ صاحبو!پاکستان تین بڑے مسائل میں پھنسا ہوا ہے۔ پہلا مسئلہ لا اینڈ آڈر کا ہے جو ملک میں جاری دہشت گردی کی وجہ سے ہے جس کی وجہ سے ملک میں باہر سے سرمایا نہیں آرہا بلکہ خوف کی وجہ سے سرمایا باہر منتقل ہو گیا ہے ۔ اخبارت میںخبریں لگی ہیں کہ سال کے پہلے حصے میں پاکستان کے لوگوں نے ٤٠٠ ارب روپے دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں لگایا ہے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے ضرب عضب عوام اور فوج کی مدد سے جاری ہے۔ کراچی جو ملک کو ٧٠ فی صدے ریوینیو دیتا ہے اس میں فوج کی مدد سے ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے جس کے اچھے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ دوسرا مسئلہ مہنگائی کا ہے جس کی وجہ انرجی کرائسس ہیں ملک میں پہلے سے قائم انڈسٹریل زونز انرجی کی وجہ سے بند پڑے ہیں اور اسی وجہ سے نئی انڈسٹری نہیں لگ رہی جس کی وجہ سے مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔
اقتصادی راہداری سے ملک میں نئے اقصادی زونز قائم ہونگے جس سے پاکستانیوں کو روز گار ملے گا اس سے مہنگائی ختم ہو گی۔۔ اور تیسرا مسئلہ ملک میں سیاسی اتفاق رائے کا ہے۔ گزشتہ داہائیوں میں سیاست دان آپس میں لڑتے رہے ہیں۔ جو کچھ نہ کھ حل کر لیا گیا۔ ہمارے پختون بھائیوں کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور ان کے صوبے کا نام خیبر پختونخواہ صوبہ رکھا گیا۔اتفاق رائے سے ١٨ ویں ترمیم منظور ہوئی اور اختیارات مرکز سے صوبوں کو منتقل ہوئے۔جمہوری طریقے سے سیاسی اقتدار منتقل ہوا۔ضرب عضب پر سب قوم متفق ہوئی۔ ملک میں جاری دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قوم متفق ہوئی اس کے نتیجے میں پارلیمنٹ نے٢١ ترمیم اتفاقِ رائے سے پاس کی۔ سستی بجلی کے حصول کے لیے ،اب ملک کا سب سے بڑا اور پرانا مسئلہ کالا باغ ڈیم کا بننا ہے۔ اسے بھی اب اتفاق رائے سے حل ہونا چاہیے۔ اس مسئلے پر اس سے قبل جو کچھ ہوا اسے ایک طرف رکھ کر اس پر بھی اس وقت قوم میں اتفاق رائے قائم ہونا چاہیے۔
Electricity
کتنی عجیب بات ہے کہ ملک میں سستی ترین بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر پاکستانی قوم میں اتفاق نہیں جس پر دنیا حیران ہے کہ پاکستانی قوم اسے کیوں حل نہیں کر رہی۔ دنیا میں پانی کے مسائل حل کرنے کے لیے حکومتیں اپنے اپنے ملکوں میںڈیم بنا تیں ہے۔ہمارے پروسی ملک بھارت میں لاتعداد ڈیم بن چکے ہیں اور مزید بن رہے ہیں۔ ہم نے جب سے پاکستان بنا ہے منگلا اور تربیلہ ڈیم کے بعد ایک بھی بڑا ڈیم نہیں بنایا جس کی وجہ سے ملک ترقی نہ کر سکا۔بجلی کے شارٹ فال کی وجہ سے ملک کی انڈسٹری بند پڑی ہے۔
لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ہماری ایکپورٹ رکی ہوئی ہے۔ باہر سے سرمایا نہیں آ رہا بلکہ سرمایا باہر منتقل ہو رہا ہے۔یہ قوم کے لیے اور خاص کر ہمارے سیاست دانوں کے لیے شرم کی بات ہے کہ ہم بجلی کے سستے اور عظیم منصوبے کی تکمیل نہ کر سکے۔ اب جب پاکستانی قوم اتفاق رائے کی طرف بڑھ رہی ہے تو سیاست دانوں کو اس مسئلے کو بھی حل کرنا چاہیے۔ اس معاملے میں سیاست دانوں نے قوم کو مایوس کیا ہے۔اب قوم کی مایوسی کودور ہونا کا وقت آ گیا ہے۔
ملک میں آوازیں اُٹھنے لگی ہیں کہ ایک مارشل لا کالا باغ ڈیم کے لیے بھی لگنا چاہیے۔ سوچنے والے لوگ اپنی بصیرت سے سوچ کر بروقت سیاست دانوں کو آگاہ کر رہے ہیں کہ کہیں وقت ہاتھ سے نکل نہ جائے اور آپ پچتاتے رہیں کہ یہ کیا ہوا۔ یہ ایسے ہی ہو گا جیسے کچھ مدت پہلے ہو چکا ہے۔ جیسے ٢١ ترمیم سیاست دانوں کو بادلِ ناخستہ ہضم کرنی پڑی اسی کالا باغ ڈیم پر بھی مقتدر حلقوںکوئی ترمیم آسکتی ہے جسے سیاست دان نہیں روک سکیں گے۔ یہ پوری قوم کی خواہش ہے کہ اب فوراً کالا باغ ڈیم پر کام شروع ہونا چاہیے۔اللہ ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے بچائے آمین۔