تحریر : روہیل اکبر ملک میں اس وقت افراتفری کا عالم ہے ایک طرف سیلاب نے عوام کو ڈبو رکھا ہے تو دوسری طرف الطاف حسین نے ایک نیا تماشا لگا رکھا ہے ہر ٹیلی ویژن چینل پر بیٹھا ہوا فنکار اپنی اپنی اداکاری کے جوہر دکھا رہاہے ایک شو میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو تاریخی کہا جارہا ہوتا ہے تو دوسرے شو میں اسی حکومت کی ایسی تیسی کی جارہی ہوتی ہے ایک طرف زرداری کے حواری اسے فرشتہ ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں تو دوسری طرف شیخ رشید اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھ رہا ہوتا ہے ہم صرف باتوں میں اپنا وقت گذار کرملک کی تباہی کررہے ہیں کرتے کراتے کچھ بھی نہیں ہیں صرف ہر صاحب اقتدار اور اختیار نے عوام کو بیوقوف بنانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔
ایک طرف ملک میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے تو دوسری طرف سائیں کی حکومت میں کراچی کی عوام پینے کے صاف پانی کو ترس رہی ہے ایک طرف کرپشن کے زریعے دولت کے انبار لگائے جارہے ہیں تو دوسری طرف ملک میں بڑھتی ہوئی غربت کے ہاتھوں لوگ خودکشیاں کررہے ہیں پاکستان میں مالی پریشانیوں اور گھریلو جھگڑوں کے باعث خودکشی کا رجحان تو تھا لیکن اب ملک میں جاری معاشی بحرانوں کے باعث بیروزگاری اور لوڈ شیڈنگ کی شرح میں تشویشناک اضافے اور قوت برداشت ختم ہونے کے باعث مذکورہ رجحان میں3گنا اضافہ ہوگیا ہے ،پاکستان میں خودکشی کے حوالے سے کراچی پہلے نمبر پر ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم کے اکٹھے کیے ہوئے اعدادوشمار کے مطابق25مئی سے 25جون تک کے دوران صرف ایک ماہ میں ملک بھر میں 195افراد نے خود کشی کرلی،خود کشی کرنے والوں میں 59خواتین شامل تھیں جبکہ اسی دوران43افراد نے خودکشی کرنے کی کوشش کی جنھیں بروقت طبی امداد دے کر بچا لیا گیا،اقدام خود کشی کرنے والوں میں 17خواتین شامل ہیں،اعدادوشمار کے مطابق خودکشی کرنے والوں میں 110 افراد نے گھریلو جھگڑوں و مسائل سے تنگ آکر اور 23 نے معاشی تنگ دستی سے مجبور ہو کر خودکشی کرلی۔خودکشی اور اقدام خودکشی کے 238واقعات میں سے صرف 21واقعات کی ایف آئی آر درج ہوئی،ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد 10لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔
Suicide
دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک فرد خودکشی کرتا ہے ،پاکستان میڈیکل ایسو سی ایشن کے اندازے کے مطابق2020تک پاکستان میں ڈپریشن کی شرح بہت زیادہ بڑھ جائے گی،ماہرین نفسیات کے مطابق انسان کے ذہن میں خودکشی کرنے کا خیال صرف چند لمحے کے لیے آتا ہے ،اگر ان چند لمحوں کو قابو کرلیا جائے تو خودکشی کے رجحان کو کم کیا جا سکتا ہے ،جب کوئی بھی انسان فرسٹریشن یا شدید ترین مایوسی کا شکار ہوجائے تو اس کے ذہن میں 3صورتیں بنتی ہیں وہ حالات سے سمجھوتہ کرلے یا ان کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے یا تیسری صورت میں زندگی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے خودکشی کرلے ۔پاکستان میں موسم گرما میں خودکشی کے اس تیسرے رجحان میں اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ لوڈ شیڈنگ کے باعث لوگوں کی طبیعت میں چڑچڑاپن غالب آجاتا ہے اور قوت برداشت ختم ہوجاتی ہے ماہرین سماجیات کے مطابق گھریلو مسائل خودکشی کی سب سے بڑی وجہ ہے ،اس کے علاوہ غربت، بیروزگاری،ذہنی دباؤ،خاندانی تنازعات ،محبت میں ناکامی، سماجی نا انصافی جیسی بڑی وجوہات ہیں،اگر حکومت زہر کی کھلے عام فروخت اور اسلحے کے استعمال پر پابندی سے خودکشی کے رجحان میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
معاشی حالات اور سماجی انصاف نہ ہونے سے لوگوں کے پاس موت کو گلے لگانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچتا اور حکومت بھی انہیں بچانے میں کوئی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی اسی طرح کراچی میں پانی کا مسئلہ بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا حالیہ بارشوں میں حب ڈیم میں 15فٹ پانی کا اضافہ ہوچکا ہے اور کراچی کو تقریباً 50ملین گیلن پانی کی روزانہ فراہمی شروع ہوچکی ہے تاہم ٹینکرز و زیر زمین پانی چور مافیا اور والوآپریشن میں گڑبڑ کے باعث میٹروول، نارتھ کراچی، نیوکراچی، سرجانی ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن، بن قاسم ٹاؤن، گڈاپ، ملیر، لانڈھی، عزیزآباد، اولڈسٹی ایریاز، لیاقت آباد، محمود آباد اور دیگر علاقوں میں پانی کا بحران بدستور جاری ہے ، ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضازیدی جو سینئر بیوروکریٹ ہیں تاہم انجینئر نہ ہونے کے باعث واٹر وبورڈ کے تکنیکی معاملات سمجھ نہیں پارہے ہیں، انھوں نے اسٹاف آفیسر الٰہی بخش بھٹو کو تعینات کیا ہے جو انجینئر نہیں ہیں تاہم کمیشن اور وصولیابی میں ماہر ہونے کی وجہ سے منطور نظر ہیں۔
ڈی ایم ڈی ٹیکنیکل نے بھی منظور نظر افسران کو اہم ذمے داری سونپ رکھی ہے جو اعلیٰ حکام کو خوش رکھنے کا فن جانتے ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ ایم ڈی واٹر بورڈ نے اضلاع میں نااہل چیف انجینئرز کو تعینات کردیا ہے جو والو آپریشن پر کروڑوں روپے کا بھتہ کارخانوں اور کمرشل یونٹس سے وصول کرکے اعلیٰ حکام کو پہنچا رہے ہیں جس کی وجہ سے پانی کی منصفانہ تقسیم نہیں ہورہی اور شہری پانی کے حصول کے لیے ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں حالانکہ حب ڈیم کا ریزوائر لیول 290.6فٹ ہوچکا ہے جس کے ذریعے تقریبا 50ملین گیلن پانی کی فراہمی کراچی کو شروع کی جاچکی ہے ، پانی کا یہ ذخیرہ 9ماہ کے لیے کافی ہے اگر ایف آئی اے واٹر بورڈ میں بھی 2013سے اب تک بے قاعدگیوں کی تحقیقات کرے تو اربوں روپے کی کرپشن کا انکشاف ہوسکتا ہے ۔رہی بات الطاف حسین کی انہوں نے اسی طرح ہی اپنی کاروائیاں جاری رکھنی ہے کیونکہ ہم بنیادی طور پر اندر سے کمزور ہیں معمولی چور کو تو ہم پھانسی کے تختے تک نہیں چھوڑتے اور بڑے بڑے ڈاکوؤں کو ہم اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیتے ہیں عوام کو بہتری کی امید ہے تو اپنے قومی ادارے فوج سے باقی تو ہر طرف سیاستدانوں کا بازار حسن سجا ہوا ہے اور تماش بین مزے لے رہے ہیں۔