سیاست دانوں کی مدخلت کے باعث 1995 ء میں 68 لاکھ روپے کی مالیت سے تعمیر ہونے والا بس اسٹینڈ آج تک آباد نہ ہو سکا

Bus Stand

Bus Stand

کروڑ لعل عیسن ( نامہ نگار) سیاست دانوں کی مدخلت کے باعث 1995 ء میں 68 لاکھ روپے کی مالیت سے تعمیر ہونے والا بس اسٹینڈ آج تک آباد نہ ہو سکا۔ سابق ایم پی اے ملک اللہ بخش سامٹیہ نے 1995 ء میں شہریوں کے مطالبے پر بس اسٹینڈ کروڑ سے ایک کلو میٹرکے فاصلے پر تعمیر کروایا اور وہاں پر قریشی برادران سے تقریباً 20 کنال اراضی ٹی ایم اے کروڑ نے 8 لاکھ روپے میں خرید کی۔ جس پر 68 لاکھ روپے کی لاگت سے وہاں پر کمرے اور پختہ سڑکیں تعمیر کروائی گئیں۔ لیکن اگلی حکومت میں ملک اللہ بخش کی جگہ ملک احمد علی اولکھ ایم پی اے منتخب ہوئے جنہوں نے قریشی برادران کے ساتھ اپنی سیاسی رنجش پوری کرنے کیلئے بس اسٹینڈ کی منتقلی روک دی اور بعد ازاں بہادر احمد خان ایم این اے ، شہاب الدین خان ضلع ناظم اور سجاد احمد خان سیہڑ تحصیل ناظم بنے انہوں نے بھی قریشی برادران سے اپنا سیاسی انتقام لیتے ہوئے

بس اسٹینڈ کو منتقل نہ ہونے دیا۔ آخر میں ضلع ناظم شہاب الدین خان نے قریشی برادران سے صلح کرنے کے بعد وہاں پر اپنی افتتاحی پلیٹ نصب کروائی اور وعدہ کیا ہے بس اسٹینڈ جلد شفٹ کروا دیا جائے گا۔ اور ہیلے بہانے کرتے رہے لیکن ان کا دور ختم ہوا۔ 2008 ء کے انتخابات میں ملک احمد علی اولکھ منتخب ہوئے اور بعد ازاں صوبائی وزیر بھی بنا دیئے گئے انہوں نے وہی تاریخ دہرائی۔ اور اپنے آخری سال میں انہوں نے بھی قریشی برادران کو راضی کرنے کیلئے فی الفور بس اسٹینڈ شفٹ کرنے کا وعدہ کیا۔ اور بس اسٹینڈ کے کمروں کی کھڑکیاں اور دروازے دوبارہ لگائے گئے۔ اور ساتھ ہی ایک شیڈ بھی تعمیر کروایا گیا۔ اور اپنے نام کی افتتاحی پلیٹ بھی نصب کروا کر افتتاح کیا۔ لیکن بس اسٹینڈ پھر بھی شفٹ نہ کیا گیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ٹی ایم اے کروڑ اور انتظامیہ کو اپنی اس وقت کروڑوں روپے کی اراضی کا کچھ خیال نہیں۔

ٹی ایم اے خواب خرگوش کے مزے لے کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب کمشن کمانے کیلئے سابقہ بس اسٹینڈ پر کروڑ روپے غیر قانونی طور پر خرچ کر کے شہر کے وسط میں چھوٹی سی جگہ پر بس اسٹینڈ چلایا جا رہا ہے۔ کروڑ لعل عیسن کے عوامی سماجی شہری حلقوں نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ کروڑ میں بس اسٹینڈ کو فی الفور فنکشنل کیا جائے۔