انسان میں زندہ رہنے کی خواہش ہوتی ہے تو موت کا خوف بھی قائم رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس خوف کو اپنے اندر ہی دبا کر دنیا کی رنگینی میں اپنے آپ کو مصروف کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ لیکن زندگی کے قدم قدم پر خوف مختلف شکلوں میں اس کے سامنے آتا رہتا ہے۔ جیساکہ زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کی خواہش کرتا ہے کیوں کہ وہ غریبی کے خوف کا تصور کر کے کانپ جاتا ہے ۔ کاروبار کو پھیلانے کی خواہش کرتا ہے تو اس میں خسارہ کے خوف اس کے اندر ضرور ہوتا ہے۔ کچھ نیا کرنے کی ارادہ کرتا ہے تو اس میں ناکامی کا خوف اسے فیصلہ کرنے میں مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ خوف کا تعلق انسان کے ذہین میں ایک نفسیاتی احساس سے ہے جو قدرتی طور پر اس کے اندر موجود رہتا ہے۔آئین پاکستان کا آرٹیکل 62/63 بھی ایک ایسی تلوارہے جس نے ہمارے سیاستدانوں میں ایک خوف پیدا کر رکھا ہے۔ اس خوف کی وجہ سے وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور کسی طرح آئین پاکستان میں سے اس آرٹیکل کو نکالنے کیلئے بے چین ہیں۔
آئین کی اس چھپی ہوئی62/63 کی تلوار کو نیام سے نکالنے کا کام ڈاکٹر طاہرالقادری نے 31جولائی 2010کو بیداری شعور کی مہم کا آغاز کرتے ہوئے کیا ۔ اسی سلسلے میں 18دسمبر 2011کو راولپنڈی میں بیداری شعور ریلی بھی نکالی ۔ مختلف پریس کانفرنس اور انٹرویوز کے ذریعے آئین کے آرٹیکل62/63 کے نفاذ کیلئے اداروں کو مخاطب کرنے لگے کہ آئین کے اس آرٹیکل کے ذریعے کرپٹ ، بنک ڈیفالٹر، جھوٹ بولنے والے، جعلی ڈاکومنٹس، بجلی سے لے کر ٹیکس کی چوری تک کرنے والے سیاستدانو ں کا اسمبلی میں جانے کا راستہ قانونی طریقے سے روکا جا سکتا ہے اور پھر پاکستان کی عوام نے اس آئینی تلوار کا پہلا شکار ہوتا ہوا دیکھا جب 63/1 G کے تحت وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو19جون 2012کو وزارت عظمی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پھر اس اس تلوار کی زد میں کئی سیاستدان آتے چلے گئے جن میں اکثریت جعلی ڈگری پیش کرنے پر نااہل ہوئے۔
جب پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی پانامہ کا شور ہوا۔ دنیا کے کئی ممالک کے وزیر اعظم پانامہ لسٹ میں نام آنے کی وجہ سے غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ہی مستعفی ہو گئے ۔ لیکن پاکستانی وزیر اعظم نے اس کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا۔ کیس عدالتی کاروائی میں گیا ،پانامہ میں ہونے والے انکشافات پر تحقیق ہوتی رہی اور ابھی تک جاری ہے لیکن اس دوران کیس میں جب یہ بات سامنے آئی کہ الیکشن فارم میں اقامہ اور دیگر اثاثہ جات پر جھوٹ بول گیا ہے تو پھر ایک بار اسی62/63 کی تلوارکا نواز شریف شکار ہوتے ہوئے نااہل ہوئے۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے الیکشن 2018 میں اس آئینی تلوار سے بچاؤ کیلئے دو سال پہلے ہی سوچ و بچار شروع کر دیا تھا اور سب نے مل کر الیکشن فارم سے 62/63 کی زد میں آنے والی تمام شقوں کو نکال کر نیا فارم تیار کر لیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام جماعتیں اس آئینی تلوار سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں ۔ الیکشن میں ووٹ کے حصول کیلئے عوام کے سامنے اپنے آپ کو نیک ، صالح ،ایماندار اور محب وطن کے طور پر پیش کرنے والے اگر وہ اس ملک اور عوام کے ہمدرد ہیں تو اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کیوں نہیں کرتے۔ حیرت کی بات تو اس وقت سامنے آئی جب پاکستان میں انصاف اور تبدیلی کی بات کرنے والی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی آئین پاکستان کے ساتھ ہونے والی اس گھناؤنی سازش پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے اس میں برابر کے شریک نظر آئے۔ اس وقت پاکستان میں سوائے ڈاکٹر طاہرالقادری کے کوئی بھی رہنما 62/63کے نفاز کی بات نہیں کررہا ۔ سب اس تلوار سے بچنے کی کوشش میں ہیں۔
الیکشن 2018پاکستان اور عوام کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے بعد یہ سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ عوام کے پاس معلومات پہلے سے زیادہ پہنچ رہی ہیں ۔ سیاستدان کے کردار اس وقت عوام سے پوشیدہ نہیں۔ اب عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے جماعتوں کی نسبت کو دیکھتے ہوئے ووٹ دیں گے یا پاکستان کی سا لمیت و ترقی کو دیکھتے ہوئے امیدواروں کا انتخاب کریں گے۔