آج دہشت گردی، لوٹ مار، قتل وغارت گری، کرپشن، اقرباء پروری، بے لگام ہوتی منہ توڑ اور سرپھوڑ مہنگائی، بھوک و افلاس سمیت توانائی کے بحرانوںجیسے جن مسائل سے پاکستانی قوم دوچارہے یقینا اِس پس منظرمیں پاکستانیوں کی اکثریت کا بس ایک یہی خیال ہے کہ ” آج نہ تو نواز اچھا ہے.. اور نہ زرداری اچھا تھا..اَب اگر کوئی اچھا ہوگا.؟ تو بس وہ اچھا ہو گا..؟ ہاتھ جس کے بس ڈنڈا ہو گا..” آج جمہور اور جمہوری روایات اور جمہوریت کے پجاریوں نے تو قوم کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے۔ اَب بس قوم کی تو یہی ایک دُعا ہے کہ اللہ ہمیں ایسی جمہوریت ومہوریت سے نجات دلائے اور جلد حکمرانوں اورسیاست دانوں پر ڈنڈے چلانے والا آمر مسلط کردے جس ہمیں سکون نصیب ہو اور ہمارے سیاستدان اِدھر اُدھرمنہ چھپاتے پھریں۔(آمین)
ایسے میں یقین جانیئے کہ موجودہ حالات میں سِول حکمران جمہوریت کو گودلے کر قوم کو جتنالوٹ رہے ہیں اوراپنی نوراکشتی سے ایک کے بعد ایک مُلک اور قوم کو تباہ کررہے ہیں ، اِس کا اتنابُراحال تو کسی جابر و فاسق آمر نے بھی کبھی نہیں کیاتھا،اور نہ ہی مسقتبل قریب میں آنے والا کوئی باہمت آمر مُلک و قوم کا اِتنابُراحال کبھی کرسکتاہے جتناکہ ہمارے موجودہ سِول حکمرانوں نے مُلک اور قوم کا چہرہ بگاڑ دیا ہے اَب ہمارے یہ حکمران جو کبھی جمہوریت کی گود میں بیٹھ کر.. توکبھی جمہوریت کو گودلے کر… قوم کو بے وقوف بناتے ہیںآج وہ یہ نہ سمجھیں کہ قوم تو پاگل ہے..؟ یہ اِسے جس طرح اور جب چاہیں کان پکڑ کر اپنا اُلو سیدھا کرسکتے ہیں تو یہ میرے جمہوریت کے پجاری اِن سِول حکمرانوں کی بھول ہو گی، آج اِنہیں یہ معلوم ہوجاناچاہئے کہ قوم اِن کی چالیں اور عیاریاں اور مکاریاں سمجھ چکی ہے، اور اَب یہ اِن کے کسی ایسے بہکاوے میں نہیں آئے گی جیسے یہ پہلے کبھی اِسے اپنی چکنی چپڑی باتوںسے پٹالیاکرتے تھے۔
جیساکہ حسبِ عادت اور روایت گزشتہ دِنوںایک بار پھر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویئٹرپرپاکستان پیپلزپارٹی کے(جوینیئر) سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹوزرداری نے قوم کو پٹانے اور بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہوئے انتہائی وثوق کے ساتھ یہ کہا ہے کہ ”موجودہ حکمران بُزدل ہیں ، عوام کو کچھ نہیں دیاہے”ْاورجناب بلاول صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ( اِن کے اَبوجی اور مُلک سابق صدر) آصف علی زرداری نے تواپنے دورِ اقتدارمیں دہشت گردی کے خلاف آپریش شروع کیا اور اگرآ ج کے بُزدل حکمران کچھ نہیں کرسکتے ہیں تو پھر خاموش رہیں ،یہاں راقم الحرف کو ایسالگاکہ جیسے بلاول یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ موجودہ حکمران طالبان کے معاملے سمیت مُلک کو درپیش توانائی اور دیگر مسائل کے حل پر ہونے والی اپنی ناکامی پر بھی بہانے بازی بندکریں” اِس موقع پر ایسا لگا کہ جیسے بلاول لہک لہک کریہ بھی کہناچاہ رہے تھے کہ”جب پیپلزپارٹی اقتدارمیں تھی تو تب بھی اِس نے مُلک سے دہشت گردی سمیت دوسرے مسائل کے حل کے لئے اندرونی اور بیرونی طورپر انگنت کوششیں اور منصوبے تیارکئے تھے اور اَب بھی اِس کی یہی کوشش ہے کہ جس قدرجلدممکن ہوسکے مُلک سے دہشت گردی اور توانائی کے بحران ختم ہوںاِس کے لئے یہ اپوزیشن میں رہ کر بھی متحرک نظرآتی ہے جبکہ بلاول نے اپنے ٹویٹئر کے پیغام میں نواز شریف اور عمران خان پر یہ الزام لگاتے ہوئے کہاہے کہ جب پیپلزپارٹی اقتدار میں تھی توتب بھی نواز شریف اور عمران خان نے بطوراپوزیشن کبھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کامطالبہ نہیں کیالیکن یہ حکمتِ عملی آصف علی زرداری کی ہی تھی کہ اُنہوں نے آپریشن شروع کیا”اورراقم کو ایسابھی لگاکہ جیسے بلاول یہ کہناچاہ رہے ہوں کہ آج بھی اِن کے اَبو اور سابق صدرآصف علی زرداری دہشت گردوں سے مذاکرات کے بجائے دہشت گردوں کی دہشت گردی کے خلاف سخت ترین فوجی آپریشن کے حامی ہیں۔
Asif Ali Zardari
جبکہ یہاں راقم الحرف بلاول کے اِس کہے سے قطعاَمتفق نہیں ہے کہ ”اِن کے اَبواور مُلک کے سابق صدرآصف علی زرداری نے اپنے دورِ اقتدار میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن شروع کرنے کے علاوہ توانائی کے بحرانوں سمیت عوام کو درپیش دیگر مسائل حل کرنے میں خاص دلچسپی لی، جب کہ یہ حقیقت آج جِسے شاید خود آصف علی زرداری سمیت پیپلزپارٹی والے خود بھی تسلیم کرلیں گے کہ اُنہوں نے اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدارمیں ساراوقت مصالحت اور مفاہمت پسندی اور اِدھر اُدھر کی چاپلوسی کرتے اور اپنے پرائے اور روٹھے ہوؤں کو منت سماجت سے مناتے اور قومی خزانے سے اِن پر دولت لُٹاتے ہوئے گزاردیا..کہوکہ یہ سب جھوٹ ہے ایسانہیں ہے تو پھر کیا کوئی یہ کہہ سکتاہے.کہ قوم تو پاگل ہے ..؟ بس عقلِ کُل تو بس حکمران اور سیاست دان ہیں۔
بہرحال …!! آج گزشتہ چند دہائیوں سے میری پاکستانی قوم دہشت گردی سمیت جن دیگر گھمیر مسائل سے دوچار ہے ،یقینا ٰاِس سے قبل میری قوم نے اِیسے مسائل کانہ توکبھی سُناتھااور نہ ہی کبھی اِن کے بارے میں سوچاتھا، مگرموجودہ حالات میں تو ایسے لگتاہے کہ جیسے اِس پر مسلط کئے جانے والے اِن( دہشت گردی اورتوانائی بحران سمیت اوردوسرے) مسائل کے فوری حل کے بارے میں اُٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے سُوچ سُوچ کر قوم کا بُراحال ہوگیاہے، یعنی جوں جوں اِس کی سُوچ وفکرمیں شدت آتی جارہی ہے تو وہیں سارے معاشرے اور مُلک میں اِن مسائل کی جڑیں بھی تیزی کے ساتھ پھیل کر مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہیں ،اور ایسے میں تو حکمرانو، سیاستدانوں اورعسکری قیادت سمیت مُلک میں قانون نافذکرنے والے اداروں کی بھی کوئی حکمت کارگرثابت نہیں ہوپارہی ہے۔
اگرچہ آج سب کی بس ایک یہی کوشش ہے کہ کہیں سے بھی اُمید کی کوئی ایسی کرن سُجھائی دے جائے جس کی روشنی میں یہ سب باہم مل کر دہشت گردی سمیت دیگر مسائل سے چھٹکارہ حاصل کرلیں مگر افسو س ہے کہ آج تک قوم دہشت گردی اور توانائی جیسے دیگربحرانوں کے جن اندھیروں میں بھٹک رہی ہے ایسے میں کسی کو کہیں سے بھی کوئی ایسی اُمیداور روشنی دِکھائی نہیں دے رہی ہے کہ جس پریہ چل کر کوئی مثبت راہ نکال سکے۔
آج اگر پہلے وقتوں یعنی گزشتہ (دو یا تین دہائیوں )سے پیوستہ دہائیوں کا جائزہ لیا جائے تو میری قوم کو جو مسائل شدت کے ساتھ درپیش رہے اُن میں تو بس اچھی اور سستی خوراک، اچھی و معیاری اور سستی تعلیم، بہترین اور سستاعلاج ومعالجہ،، جدید سفری سہولیات کے حُصول کے ساتھ ساتھ عوام کوپینے کے صاف پانی کی فراہمی سمیت سیوریج کے نظام کی درستگی جیسے مسائل تو شامل ہی تھے آج مگرافسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ گزشتہ 67 سالوں میں ہمارے سِول حکمران اِن مسائل کو تو حل نہ کرسکے بلکہ کچھ نے تو باہوش وحواس اور دیدہ و دانستہ طور پر اغیار کا آلہ کار بن کر ملک اور معاشرے میں دہشت گردی اور توانائی جیسے بحرانوں کو بھی پروان چڑھانے میں اپنے اپنے حصے کا کام بڑھ چڑ ھ کرکچھ یوں اداکیا ہے کہ آج اِن سے یہ خود بھی محفوظ نہیں ہیں اِیسے میں عوام کو تو چھوڑیں یہ تو بیچاری پیدا ہی مرنے اور مصائب برداشت کرنے کے لئے رہ گئی ہے۔