بحث زوروں پر تھی ہر کوئی اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے حق میں دلائل دے رہا تھا کچھ نیا شوشہ چھوڑ کر تماشا دیکھتا: اس سے محظوظ ہوتا پھر کوئی نئی پھلجھڑی چھوڑ دیتا جو جلتی پرتیل کا کام کر دیتی ایک صاحب نے تنگ آکر کہا چھوڑو۔۔ اب اپوزیشن کو سال بعد احتجاج کرنے کا خیال آیا ہے یہ کیا بات ہوئی؟ دوسرے نے ہاں میں ہاں ملائی 20 جون کو شیخ رشید کا ٹرین مارچ 22 جون کو عمران خان کی بہاولپور سونامی اور 23 کو شیخ الاسلام کی پاکستان واپسی۔۔۔یعنی ایک ہفتے میں تین بڑے پروگرام اور سب کے سب حکومت کے خلاف۔۔۔کمال ہے بھئی۔۔۔بس اب نواز حکومت گئی ایک جیالا حلق پھاڑ کر چیخا۔۔۔ چپ۔۔۔ایک بزرگ نے ڈانٹا ایسی یاتیں نہ کر زرداری ناراض ہو جائے گا۔۔۔
یہ سنتے ہی جیالے کی ہنسی کو پریشر بریک لگ گئی۔۔۔ویسے کو شیخ رشید،عمران خان اورطاہرالقادری کے متحدہونے سے حکو مت کو وخت پڑ گیاہے ایک نے رائے دی شیخ رشید اورعمران خان کے بارے میں کیا کہوں ایک موٹے سے سخص نے ہاتھ اٹھا کر،منہ پھلا کر کہا شیخ الاسلام کے بارے میں مجھے یقین ہے وہ سیاسی دوکاندار ہے۔۔۔
کسی ایک کا نام لو دبلاپتلا پاٹ دار آواز میں ترت بولا ۔۔۔جو سیاسی دوکاندار نہیں۔۔۔اس کی آواز سن کر سب کوجیسے سانپ سونگھ گیا۔۔ ایسی چپ کہ سب خاموش حیرت سے ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے ۔۔۔یہ نظام ہی ایساہے کسی نے وقفے کے بعد خاموشی توڑتے ہوئے کہا میں نظام کی بات نہیں کررہا دبلاپتلاپھرگویاہوا ۔۔۔ہے کوئی سنگل پرسن۔۔جس کے بارے میں آپ کا دل گواہی دے کہ وہ سیاستدان ہے سیاسی دوکاندارنہیں۔۔ شایدکسی کے پاس اس تلخ سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ۔۔۔ بزرگ نے کہا طاہر القادری کے پروگرام یاطریقہ ٔ کار سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کی باتیں دل میں ترازو ہو جاتی ہیں جب تک۔۔۔ایک اور آواز گونجی جب تک یہ سسٹم تبدیل نہیں ہوتا مجھے تو بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی میں اکثر سوچتا رہتا ہوں پاکستان میں جمہوریت سے مراد شاید خاندانی بادشاہت ہے۔۔۔
میاں نوازشریف کے 22 عزیز واقارب حکومت میں موجود ہیں ماضی میں یہی صورتحال پیپلز پارٹی کی تھی مذہبی جماعتوں کا حال شاید سب سے برا ہے دن رات جمہوریت، جمہوریت کا راگ الاپنے والوںمیں اختلاف رائے بھی برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں پارٹی ورکر تو بہت دورکی بات ہے یہ اپنی پارٹی کے ارکان ِ اسمبلی کو ملازم جتنے حقوق دینے کیلئے تیار نہیں ہے جتنا غورکریںدل کو یقین ہوتا جاتاہے ملک میں جمہوریت کے نام پر سول ڈکٹیٹر شپ موجودہے شاید ذوالفقارعلی بھٹو سے لے کر موجودہ حکومت تک سب جمہوری حکمرانوںکو انہی روایات سے پیارہے تبھی تو ان کو سینے لاکر رکھنا فخرسمجھا جاتاہے اس صورت ِ حال کے ذمہ دار عوام بھی ہیں جوتسلیم بھی کرتے ہیں زبان سے اظہار بھی لیکن انہوںنے ان سیاسی جماعتوںکو ایمان کا حصہ بنایا ہواہے ۔۔جب بھی کوئی یہ پو چھتاہے کسی ایک سیاستدان کا نام لو جو سیاسی دوکاندار نہیں سب بغلیں جھانکتے لگتے ہیں۔ کمال، حیرت ،افسوس اور اس سے بڑھ کریہ شرم کی بات نہیں کہ ہمارا دامن خالی ہے ہم کسی سنگل پرسن کو بھی نہیں جانتے جس کے بارے میں دل گواہی دے کہ وہ سیاستدان ہے سیاسی دوکاندار نہیں یعنی یہ ایسا قحط الرجال ہے جس کے بارے میں علامتی طورپر کہا جا سکتا ہے۔۔۔
Democracy
قافلہ ٔ حجاز میں ایک بھی حسین نہیں جب تک اکثریت فیصلہ نہ کرلے کہ ہم نے اس ملک میں وہ جمہوریت لانے کی کوشش کرنی ہے جس کے ثمرات سے عوام فیضیاب ہوں تبدیلی آنا ممکن ہی نہیں اس حقیقت سے بھلا انکار کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ ارکان ِ اسمبلی کوعام آدمی کے مسائل سے دلچسپی ہے نہ تعلق۔ یہ عام آدمی کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہوں گے بیشتر سیاستدان قومی وسائل پر قابض ہیں جبکہ عام آدمی کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں بندہ پائو آدھا کلو گوشت لینے چلا جائے قصائی کا انداز ایسا بے رحم ہوتا ہے غریب کا دل کرتا ہے گوشت نہ کھائے اس سے بہتر ہے کہ زہر کھا لے۔
ان حالات میں عمران خان کی بات نہیں انہوں نے صرف موروثی سیاست کے خلاف مورچہ سنبھالا ہواہے جبکہ شیخ الاسلام طاہر القادری اور شیخ رشید عوامی ایشوپر بات کرتے ہیں اور انکی بات دل کو لگتی ہے وہ موجودہ سسٹم کے خلاف ہیں جتنی منظم سٹریٹ پاور عوامی تحریک کے پاس ہے شاید کسی کے پاس نہ ہو اسی لئے کئی بزرجمہروںنے میاں نواز شریف کو ایک احمقانہ مشورہ دیا ہے کہ طاہر القادری کو گرفتار کرلیا جائے اس مشورے پر عمل کرلیا گیا تو حکومت زیرو شیخ الاسلام ہیرو بن جائیں گے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں نہ ہونے کے باوجود اپوزیشن لیڈربن کر ابھریں گے۔۔۔ایک بات بڑی عجیب ہے شیخ رشید ،عمران خان اورطاہر القادری تینوں موجودہ حکومت کے خلاف ہیں ۔۔میاں نواز شریف کو ٹف ٹائم دینا بھی چاہتے ہیں لیکن ان میں بھی کوئی اشتراک ِ عمل نہیں ۔۔۔تال میل بھی نہیں ۔۔۔منصوبہ بندی نظر آرہی ہے نہ حکمت ِ عملی ۔۔۔ علیحدہ علیحدہ تنہا تنہا۔۔ کیا احتجاجی تحریکیں اس طرح بھی چلائی جا سکتی ہیں لندن میں موجود ہونے کے باوجود عمران خان نے طاہر القادری سے ملاقات کرنا بھی پسند نہیں کیا حالانکہ یہ ٹرائیکا سیاسی ٹمپریچر بڑھا سکتی تھی اس سے ظاہر ہے عمران خان کے دل میں ایسا ضرور کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے یاپھر وہ ڈبل مائنڈڈ ہیں اس وقت صرف چوہدری برادران ۔۔۔میاں نوازشریف کو ٹین شین دینے کیلئے حکومت مخالف ہر سیاستدان سے رابطے کررہے ہیں کچھ لوگوںکا خیال ہے جس دن ان کی میاں صاحب سے لائن سیدھی ہوگئی یہ ٹائیں ٹائیں بھی قش ہو جائے گی۔۔۔بہرحال یہ بات غورطلب ہے کہ ہم اتنے تہی دامن ہیں کہ ہمارے پاس تمام دکاندارہیں کام کا سیاستدان ایک بھی نہیں دور کہیں دور استاد امانت علی ۔۔انشاء جی کی غزل گا رہے تھے۔۔۔