سیاستدان آخرت تو خراب نہ کریں

Politicians

Politicians

کہا جاتا ہے کہ اِنسان کی اوائلِ عمر میں جو اچھی یا بُری عادات اِس کی ذات میں پنپ اٹھتی ہیں وہی عمرکے باقی حصوں میں بھی نظرآتی ہیںاور اِسی طرح ذہنِ انسانی پر ماحول، صحبت، تعلیم وتربیت سے جو نقوش ثبت ہوجاتے ہیں اور جس طرح کے اچھے یا بُرے خیالات قائم ہوجاتے ہیں وہی بعد میں بھی اِس کی ذات کا حصہ رہتے ہیں سو اِسی لئے تو دانا کہہ گئے ہیں کہ ہر معاملے میں اعتدال اور اعتدال پسندی کو ہی اپنایا جانا چاہئے تاکہ نسلِ انسانی کی ٹھیک تربیت ہوتی رہے، اور اِنسان کو ہر حال میں اپنی ذات کو اِس بات کا بھی پابند بنانا چاہئے کہ اِس کی عمر کے ہر حصے میں بُرائیوں کے بجائے اچھائیاں زیادہ پروان چڑھیں۔

مگر یہاں بڑے افسوس کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ آج میں اور آپ جس معاشرے میں بس رہے ہیں اِس میں ہمیں اِنسانوں کی پیدائش بڑھانے سے تو غرض ہے مگر اِس کی ٹھیک تربیت کا خیال اور اِس کی شخصیت بنانے کی جانب کوئی توجہ دینے والا نہیں ہے جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے مگر یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ ہم اِس اہم نقطے سے غافل ہیں اور ہم نے قوم کی تعلیم وتربیت کا بیڑا اُن لوگوں کے سُپرد کر دیا ہے جو جائز و ناجائز مال و زر میں تو توانگر ہیں مگر خود تربیت سے عاری اور قابلِ رحم ہیں یعنی آج ہم اپنے کاندھوں پر پڑی اِس ذمہ داری کا بوجھ سیاستدانوں کے سروں پر رکھ کر اپنی جانیں چُرارہے ہیں۔

آج ہمای مُلکی سیاست کے میدان میں جو کھلاڑی اپنا فنِ مہارت دکھارہے ہیںاِن جیسوں کے لئے بہت پہلے ہی سٹیونسن نے ایک انکشاف کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ لگتا ہے کہ سیاست کو ایک ایسا پیشہ بنا دیا گیا ہے کہ جس میں کسی قابلیت و مہارت کی ضرورت نہیں اور آج حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارے مُلکِ عظیم پاکستان میں سیاست کے میدان میں گودنے سے پہلے کسی تربیت یا اخلاقی نشست کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بس اِس میدان میں گودنے کے لئے ضروری ہے کہ اِس کے آباؤ اجداد کی چھوڑی ہوئی دولت ہو یا اِس کے اپنے مُلکی اور بیرون مُلک بینک کھاتوں میں(اندھے، کالے دھندے سے کمائی ہوئی )اتنی دولت پڑی ہو، جس سے یہ سیاسی میدان میں اپنا وجود برقرار رکھ سکے، تو بس وہ پاکستان میں سیاست کرنے کا حقدار اور ماہر تصورکیاجائے گا۔

Pakistan

Pakistan

جبکہ گوئٹے جیسے ایک عظیم دانشور نے سیاست کی تعریف کچھ اِس انداز سے کی ہے کہ اِس کے بعد ہمارے یہاں ایسے لوگوں کا سیاست میں رہنے اور اپنے کندھے چوڑے کرکے سیاسی میدان میں گودنے کا کوئی حق نہیں رہ جاتاہے جو صرف دولت کے بدولت سیاست کے میدان میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کررہے ہیں گوئٹے کا سیاست سے متعلق کہناہے کہ ”سیاست اِنسان کی آسمانی سرگرمی ہے جس سے لاکھوں اِنسانوں کی زندگیاں اور تقدیریں وابستہ ہوتی ہیں۔

مگراِس موقع پر مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑرہاہے کہ پچھلے کئی انتخابات سے ہم ہر الیکشن میںایسے سیاستدانوں کو مینڈیٹ کے نام پر اپنا حکمران بنارہے ہیں جو سیاست کی امجد سے بھی واقف نہیں ہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ ایوانوں میں پہنچ کر سیاست کی آسمانی روح کو سمجھے بغیر کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو بگاڑنے اور اِن کی تقدیروں کو مسخ کرنے کا بیڑا اُٹھا لیتے ہیںا ور اپنی سیاسی ناتجربہ کاری کی وجہ سے اِسے اقدامات کر گزرتے ہیں کہ اِس سے مُلک کی بقا و سالمیت اور خودمختاری داؤ پر لگ جاتی ہے۔

جبکہ یہاں یہ امر بڑی حدتک قابلِ غوراور باعثِ افسوس ہے کہ ہمارے مُلک میں گزشتہ سے پیوستہ ہونے والے انتخابات میں یہ بات بھی باکثرت نظرآئی ہے کہ اِن انتخابات میں جیتنے اور ہارنے والے سیاستدانوں نے ایک دوسرے کی ذات اور کردار کو جس طرح نشانہ بنایا اِن کے قول وفعل سے اِن سب کی اصلیت کھل کر عوام کے سامنے آگئی ہے،جہاں اِس طرح الیکشن جتنے اور اپنی دنیا بنانے کے چکرمیں اپنے اِس فعلِ شنیع سے ہمارے سیاستدانوں اور حقِ حکمرانی کے پوجاریوں نے ایک دوسرے کی غیبت کی اور ایک دوسرے پر بہتان لگایا ہے اِس طرح اِنہوں نے اپنے اِس عمل سے قوم کی نظر میں اپنا اعتبار توختم
کرہی لیا ہے تو وہیں اِس سے اپنی آخرت بھی تباہ کرڈالی ہے۔

اَب میں اِس موقع پر اپنی اِس بات کی مزید وضاحت کے لئے یہاں سفرِ معراج النبیۖ کے موقع پر حبیب خدا حضرت محمد مصطفی ۖ کو ہونے والے بعض مشاہدات میں سے ایک مشاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے ایک حدیث مبارکہ پیش کرنا چاہوں گا”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں…؟اُنہوں نے جواب دیاکہ ”یارسول اللہ ۖ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں(یعنی اُن کی غیبت کرتے ہیں )اور اُن کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں”(سنن ابوداود)۔

Muhammad s.a.w.w

Muhammad s.a.w.w

یہاں اگرہم غیبت کا لغوی معنی دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ غیبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے کے سامنے کسی کی برائیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کیا جائے، جِسے وہ بُرا سمجھے، جیساکہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے ، اور غیبت کی مزید وضاحت صحیح مسلم کی اِس حدیث سے بھی ہوجاتی ہے ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: تم جانتے ہوکہ غیبت کیا ہے ..؟صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اِس کے رسول ۖ زیادہ جانتے ہیں،آپ ۖ نے فرمایا: اپنے مسلمان بھائی کا ذکراِس طرح کرنا کہ وہ اِسے ناگوار گزرے ”لوگوں نے کہا: اگروہ برائی اِس میں موجود ہو تو..؟آپ ۖ نے فرمایا: اگر اِس کے اندر وہ برائی موجود

ہو تو تم نے اِس کی غیبت کی اور اگروہ برائی اِس کے اندر موجود نہ ہو تو تم نے اِس پر بہتان باندھا آج یہ تھیک ہے کہ نو منتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف مُلک کے 24ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا کر اپنی ذمہ داریاں گرمجوشی سے ادا کررہے ہیںاور مُلک کو بجلی کے بحران سمیت ڈرون حملوں کے ناسور سے نجات دلانے کے لئے بھی سخت اقدامات کررہے ہیں اوریہ ایک ، دوروز میں شکرانے کے طورپر عمرے کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب بھی جانے والے ہیں اِنہیں میرا یہ مشورہ ہے کہ وہ دوران عمرہ
خلافِ کعبہ
پکڑ کر اللہ سے اپنے اُن گناہوں کی معافی ضرور مانگیں جو اِنہوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران سابقہ حکمران جماعت پی پی پی اور صدر زرداری کی عوامی جلسوں ، جلوسوں میں اور اِسی طرح میڈیا پر غیبت اور بہتان لگا کر کئے تھے مجھے یقین ہے کہ ہمارے نو منتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف میری بات پر عمل کرکے رب تعالی ٰ کو بھی راضی کرلیںگے اور مُلک کو درپیش مسائل کے فوری حل سمیت اپنی حکمرانی کی درازئے عمرکے لئے بھی اپنے محسن سعودی شیخوں کو بھی منالیں گے اوراِس موقع پر میرا ایساہی ایک صائب مشورہ تحریک انصاف پاکستان کے سربراہ عمران خان کے لئے بھی ہے کہ

Nawaz Shrif

Nawaz Shrif

جناب آپ نے بھی اپنی الیکشن مہم کے دوران سر فہرست نو منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سمیت صدر زرداری اور شہباز شریف اور مولا نافضل الرحمان کی بھی خُوب غیبت کی اور اِن سب پر طرح طرح کے بہتان لگائے ہیں آپ بھی اپنے اِن دانستہ کردہ گناہوں کی توبہ اور اپنی جلد صحتیابی کے لئے عمرے پر جائیں اور خلافِ کعبہ تھام کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں تو مجھے یقین ہے کہ میرا اور آپ کا رب تعالیٰ آپ کے گناہ معاف اور صحتیاب بھی کر دے گا بس آپ عمران خان بھی اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف دونوں ایک ساتھ عمرے پر جائیں اور گناہوں سے پاک صاف ہو کر آئیں اور اپنی حکومتیں چلائیں۔
تحریر: محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com