کہتا ہے دل کہ اسکو بھی محشر پہ ٹال دے

Debt

Debt

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
گذشتہ روز اخبار میں ایک معروف سیاستدان کا بیان پڑھ کر میں سوچ کے گہرے عمیق سمندر میں ڈوبتا چلا گیا کہ آخر ہم پاکستانیوں سے کون سی ایسی خطا سرزد ہو گئی ہے جسکی سزا ستر سال کے بعد بھی ہم بھگت رہے ہیں ۔آپکے لئے وہ بیان شائید عام سی بات ہو مگر میرے لئے اور میری دھرتی کی نسلوں کے لئے ایک لمحہء فکریہ ہے۔ بیان کچھ یوں تھا کہ ہر پاکستانی قریب قریب سوا لاکھ ڈالر کا مقروض ہے یعنی جو بچہ آج پیدا ہوا اسکے ذمہ بھی اتنا ہی قرض واجب الادا ہے مقام حیرت ہے کہ نہ تو اس نومولودنے قرض لے کر کوئی فیکٹری یا مل لگائی ،نہ ہی اس نے کرائے کے مکان سے چھٹکارے کے لئے قرض لے کر کوئی اڑھائی یا تین مرلے کا مکان بنایا ،نہ ہی اس نے کوئی فلک بوس بلند و بالا پلازہ استوار کر لیا ،نہ ہی اسنے کوئی پٹرول پمپ یا مارکیٹ بنائی اسکے باوجود وہ سوا لاکھ ڈالر کا مقروض ہے اتنا قرض لے کر حکومت موجودہ یا سابقہ نے اس نومولود پر خرچ کہاں کیا ؟جو اسکے ذمہ پیدائش کے فوری بعد واجب الادا ہو گیا سرکاری تعلیمی ادارے تو ایک بڑی تعداد میں پیف کو بیچ دیئے گئے ہیں نہ فری تعلیم ہے نہ فری علاج اور نہ ہی کوئی ذاتی کاروبار یا سرکاری ملازمت میسر ہوئی عام شہری کو اسکے باوجود اسے سوا لاکھ ڈالر قرض ادا کرنا ہے ۔اور جن لوگوں کے ہاتھوں وہ قرض کی رقم آئی وہ بھی سب کے سامنے دندناتے پھر رہے ہیں۔

خون دینے والے مجنوں عوام اور چوری کھانے والے مجنوں صاحب اقتدار یا سرمایہ دار ۔اب یہ لوگ کہیں گے کہ ہم نے صحت کے نظام کی بہتری کے لئے قرض لیا تھا تو جناب میں ایک چھوٹے مگر صنعتی ضلع شیخوپورہ کا رہائشی ہوضلعی دارالحکومت میں قائم ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں نہ تو کوئی سی ٹی سکین مشین ہے نہ پراپر برننگ یونٹ ہے ادویات کی بھی شدید قلت ہے اور اسپتال کے اندر سے اگر پچیس فیصد دوائی دستیاب ہے تو پچہتر فیصد باہر کی اپنی گرہ سے خریدنی پڑتی ہے سوالاکھ ڈالر کے مقروض پاکستانی کو ۔عید تہوار پر جس کے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لئے کپڑا جوتے یا بھرپور خوشیاں خریدنے کے لئے ایک پائی نہیں ہوتی وہ بیچارہ سوا لاکھ ڈالر کا مقروض شہری ہے ،اپنے بچوں کو اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے فیسوں سے تہی دست شہری نصیبوں جلا سوا لاکھ ڈالر کا مقروض ہے ،جس بچے کو ماں کو ماں بھی ابھی کہنا نہیں آتا وہ بھی سوا لاکھ ڈالر کا مقروض ہے ،جس بیٹی کے اگر سر پر دوپٹہ ہے تو پائوں ننگے ہیں وہ دختر غریب بھی سوالاکھ ڈالر کی مقروض ہے ، وہ ماں جو سارا دن چلچلاتی ہوئی دھوپ میں اپنے کمسن بچے کو کمر پر لاد کر امراء کی گاڑیوں کی بہترین گزرگاہ تیار کروانے کے لئے پتھر اٹھا کر شام کو چکراتے ذہن اور پتھرائی آنکھوں سے اپنی جھونپڑی میں لوٹتی ہے وہ بھی سوا لاکھ ڈالر کی مقروض ہے ،وہ بھائی جو باپ کی بیماری کے لئے رقم اور بہن کے ہاتھ پیلے کرنے کی خواہش لئے جگہ جگہ نوکری کے لئے بھٹک رہا ہے وہ بیکس بے روزگار بھی سوا لاکھ ڈالر کا مقروض ہے اور دوسری طرف ایک وہ طبقہ ہے جن کی چھتیں نوٹ اگلتی ہیں جن کے صوفوں میں خس کی جگہ نوٹ بھرے ہوئے ہیں ان پر بھی اتنا ہی قرض واجب الادا ہے ،جس نے پانامیائی دولت سے دیار غیر میں اثاثے بنا رکھے ہیں وہ بھی سوا لاکھ ڈالر کا قرض دار ہے۔

کروڑوں نہیں اربوں روپے کی شرجیلی اور عاصمیائی کرپشن کے حامل افراد بھی سوالاکھ ڈالر کے مقروض ہیں ،ایانی لانڈرنگ کوئین بھی سوالاکھ ڈالر ہی کی مقروضہ ہے سرے محلوں کے شہنشاہ بھی اسی سوالاکھ ڈالر کے ہی مقروض ہیں جب قرض میں سارے پاکستانی برابر کے قرضدار ہیں تو آسائشیں سب کے لئے یکساں کیوں نہیں ؟ایک وہ ہے کہ جسے زکام ہو جائے تو وہ انگلینڈ یا امریکہ سے علاج کروا رہا ہے تو دوسرا کیوں سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرز کی جھڑکیاں کھا کر اے پی سی اور سی پی ایم پر اکتفا کر رہا ہے ؟ایک وہ جن کے بچے یورپ اور امریکہ میں تعلیم پا رہے ہیں تو دوسرا کیوں بچے کے داخلے کے لئے فیس نہ ہونے پر تڑپ رہا ہے ؟دیکھیں قارئین کرام اگر مقروضی یکساں ہے تو پھر سہولیات بھی ایک جتنی ہونی ضروری ہیں ، اگر ایک اسپتال کی لائن میں صبح کا محمد بوٹا کھڑا ہے تو پھر اسی قطار میں نواز شریف ،شہباز شریف ،زرداری اور عمران خان کھرے کیوں نہیں پائے جاتے ؟ایک وہ شخص ہے جو ٹھاٹھ سے چالیس گاڑیوں سے مزین پروٹوکولی سکواڈ کے حصار میں رواں دواں ہے اور دوسرے وہ جو انہی گاڑیوں میں بندوقیں سنبھالے اس ایک کی حفاظت پر مامور ہیں حالانکہ قرضہ تو دونوں کے ذمہ ایک جتنا ہی ہے وہ بھی سوا لاکھ ڈالر کا مقروض اور یہ بھی سوالاکھ ڈالر کا قرض دار ۔کبھی ایسا ہوا کہ دھوپ میں کھڑے گارڈ سے کسی صاحب ثروت نے یہ کہا ہو کہ بھائی اب آپ گھنٹہ بھر کے لئے آرام کر لو میں خود بندوق پکڑ کر اب آپ کی حفاظت کرونگا ؟ کیونکہ ایک ہی دھرتی کے دونوں فرزند ہیں اور ایک جتنے ہی مقروض تو پھر کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ دونوں میں ڈیوٹیاں بھی ایک جیسی ہی ہوں ایسا کیوں نہیں ہو پایا آج تک ؟صرف ان بیچارے غریب لوگوں کے نام پر قرض لینا ہی ان بڑے لوگوں کی ڈیوٹی ہے اور اس قرض میں سے اسے کیوں نہیں دیا جاتا جس نے قرض کی واپسی ان بڑوں کے ساتھ اور اتنی ہی کرنی ہوتی ہے۔

جتنی ان صاحبان مسند کے ذمہ ہے وہ اربوں ڈالر کا قرض ان ہی کی تجوریوں میں کیوں ٹرانسفر ہو جاتا ہے غریب کی جھونپڑی کی طرف رخ کرتے ہوئے کیوں کتراتا ہے ؟کیا ان قرض کے پیسوں سے کسی غریب کے سر چھپانے کو گھر نہیں بن سکتا جس سے محلات بن رہے ہیں ؟اس قرض کے پیسوں سے اس غریب کو ریڑھی لگانے کے پیسے نہیں مل سکتے جس سے بڑے لوگ ملیں اور فیکٹریاں لگالیتے ہیں ؟اور پھر غریب کو ان فیکٹریوں میں ملازمت کے لئے بھی کئی کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ اگر قرض اتارنے میں غریب صاحبان ثروت کے ساتھ برابر کا شریک ہے تو پھر ان فیکٹریوں ،ملوں اور محلوں میں وہ برابر کا وارث کیوں نہیں جو اس قرض کے پیسوں سے بنے ؟یا تو ملک کا سارا قرضہ یہ امراء اپنے ذمہ لیں یا پھر غریب کو بھی اپنا حصہ دار بنائیں مگر لگتا ہے کہ یہ فیصلہ میری دھرتی کے امراء نہیں کر پائیں گے ۔اس لئے عدل و مساوات کا درس دینے والا رب ہی اب محشر میں بہترین فیصلہ کرے گا کہ کھتا کون رہا اور اس کی سزا کون بھگتتا رہا ہے ، قرض لے کر ڈکار کون مار گیا اور قرض اتارتا کون رہا ؟اور ہاں یہ بھی تو حکم خدا وندی ہے کہ مقروض کی اس وقت تک نماز جنازہ بھی جائیز نہیں ہے جب تک اسکے ورثاء قرض ادا نہ کر دیں یا پھر قرض خواہ قرض معاف نہ کر دے یہ فیصلہ تو اب خالق کائینات کو کرنا ہے کہ سوا لاکھ ڈالر کا مقروض ہو کر پیدا ہونے والا ڈالرز ہی کا مقروض مر رہا ہے تو پھر قرض اٹھانے والے کتنوں کی نماز جنازہ بھی حرام کر رہے ہیں جینا تو مشکل تھا ہی اب مرنا بھی آسان نہیں رہا اس لئے اپنی اس فکر کو بھی میں حشر پر چھوڑ رہا ہوں کہ جنازے ہمارے حرام ہو رہے ہیں یا ان لوگوں کے جنہوں نے پوری قوم کو مقروض بنا دیا ۔یہ بار گناہ تو انہی کے سر ہے نا۔

M.H BABAR

M.H BABAR

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile;03344954919
Mail; mhbabar4@gmail.com